اکتوبر کا مہینہ کشمکش کا مہینہ ہے جس میں دن کو گرمی اور رات کو سردی لگتی ہے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ گرمی کا موسم ہے یا سردی کا۔ پاکستان کی سیماب صفت سیاست بھی اکتوبر جیسی ہے کبھی لگتا ہے کہ ہم سیاسی مفاہمت کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر اچانک ایسا بیان آجاتا ہے کہ ساری مفاہمت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے یہاں فیصلے سیاسی پارٹیوں کی لانگ ٹرم پالیسی کی بنا پر نہیں بلکہ روز مرہ ایشوز کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تسلسل کا فقدان ہے اور کسی پارٹی کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا کرنے والی ہے۔
اس ہفتے کی اچھی بات یہ تھی کہ سابق وزیراعظم عمران خان جنہیں توہین عدالت پر نا اہلی کا سامنا تھا وہ بغیر بلائے جج محترم زیبا چوہدری کی عدالت میں اپنے بیان پر معذرت کے لیے حاضر ہو گئے۔ عالمی شہرت یافتہ انسانی تعلقات کے ماہر اور بیسیوں کتابوں کے مصنف ڈیل کارنیگی نے کامیابی کے جو اصول متعین کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مقابل کو شرمندگی سے بچائیے۔ زیبا چوہدری نے بھی یہی کیا انہیں علم تھا کہ سابق وزیراعظم ان کی عدالت میں معافی مانگنے تشریف لا رہے ہیں اس موقع پر انہوں نے دانستہ خود کو جج کی کرسی پر براجمان کرنے اور اپنی ذاتی انا کی تسکین چاہنے کے بجائے خود کو غیر حاضر کر لیا۔ معافی بھی پہنچ گئی اور عمران خان سبکی سے بھی بچ گئے البتہ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ سابق وزیراعظم کو معافی کا اظہار جو وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے سامنے سے پس و پیش کر رہے تھے وہ بات انہیں ایک ماتحت عدالت کے جج کے ریڈر کے سامنے کرنا پڑا۔ ہائی کورٹ نے ان کی اس معافی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔ اگر یہی معافی وہ پہلے ہی دن مانگ لیتے تو عدالت کا اتنا زیادہ وقت ضائع نہ ہوتا اس کیس میں ایک نئی عدالتی نظیر طے ہوئی ہے کہ انہوں نے جو معافی مانگی ہے وہ اسے معافی نہیں بلکہ معذرت کہتے ہیں اور یہ غیر مشروط نہیں تھی اس کے ساتھ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ جیسی اصطلاحات کی ملاوٹ کی گئی تھی پھر بھی عدالت نے اس کو تسلیم کر لیا۔ عدالت نے جس فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے یہ اچھی بات ہے البتہ معزز عدالت کو چاہیے کہ اس طرح کے ماضی کے مقدمات میں جن سیاستدانوں کو سخت سزائیں دی گئی تھیں ان کو بھی Re-visit کرے اور طلال چوہدری، دانیال عزیز اور نہال ہاشمی کی سزائیں post datedہی سہی معطل کر دی جائیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کو دوسری بار عدالت نے معاف کیا ہے اور ان کی slip of tongue کا ریکارڈ ہے کہ کہیں آئندہ وہ پھر سے ایسا نہ کر دیں خصوصاً جب وہ جلسہ عام میں عوام کے سمندر کے سامنے ہوتے ہیں تو اکثر ان کی زبان بھٹک جاتی ہے۔
اسی اثنا میں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے آئین کی دفعہ 62 ایف ون جس میں سیاست سے تاحیات نا اہلی کا ذکر ہے اس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اگر عدالت فوری طور پر اس دفعہ کی تشریح یا نظر ثانی کا ارادہ نہ بھی رکھتی ہو تو بھی یہ پارلیمنٹ کے لیے اشارہ ضرور ہے کہ وہ 2 تہائی اکثریت سے اس پر ترمیم لا سکتے ہیں یہ وہ دفعہ ہے جو میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین پر لاگو ہے۔ تاحیات نا اہلی ”سیاسی سزائے موت“ کے مترادف ہے جو کہ بہت بھاری سزا ہے۔ موجودہ قومی سیاسی تناطر میں میاں نواز شریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے راستے میں یہ ایک رکاوٹ ہے اب جبکہ تیزی سے نواز شریف کی واپسی پر پیش رفت جاری ہے۔ ان کی واپسی پر ایک دفعہ پھر عدالتوں میں پٹیشن کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ عدالت تاحیات نا اہلی پر بھی اپنا گزشتہ فیصلہ review کر دے۔ علاوہ ازیں ان کی سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ اگر ان کے حق میں آ جاتا ہے تو پھر یہ موضوع عارضی طور پر پس منظر میں چلا جائے گا۔
اسحاق ڈار کا ایک مختصر بیان ہے کہ اگلے الیکشن میں ن لیگ کی طرف سے نوا زشریف وزیراعظم ہوں گے اس سے پہلے تاثر یہ تھا کہ میاں نواز شریف نے مریم نواز کو اپنا جانشین مقرر کر دیا ہے اور انہیں پارٹی حلقوں میں وزیراعظم کی امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ اس تبدیلی کے پیچھے کئی پس پردہ محرکات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نو از شریف کے وزیراعظم کی دوڑ میں واپس آنے کی صورت میں شہباز شریف آٹومیٹک دست بردار ہو جائیں گے جبکہ مریم نواز کے کیس میں ایسی کوئی یقین دہانی ضروری نہیں۔ نوا زشریف کی واپسی اور وزیراعظم نامزدگی سے پارٹی میں چپقلش کی باتیں دم توڑ جائیں گی اور جانشینی کا معاملہ کچھ سال کے لیے پس پردہ چلا جائے گا۔
اسحاق ڈار پانچویں مرتبہ وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھال چکے ہیں اس دفعہ وہ angry youngman کی طرح ملکی معیشت کو بحال کرنے کے بارے میں خاصے سنجیدہ ہیں ان کا امتحان شروع ہو چکا ہے البتہ ایک مثبت بات یہ سامنے آئی ہے کہ ڈالر جو کہ مفتاح اسماعیل کے ایکشن نہ لینے کی وجہ سے 248 پر چلا گیا تھا اب کافی نیچے آچکا ہے ڈار صاحب کہتے ہیں کہ وہ اس کو 200 روپے تک لائیں گے کیونکہ چور بازاری اور مصنوعی قلت پیدا کر کے ڈالر کا ریٹ بڑھایا گیا ہے کہا جا رہا ہے کہ یہ 56 ارب روپے کا سکینڈل ہے جس کے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے گا ڈار صاحب اپنے بیان سے ظاہر کرتے ہیں کہ
”ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی“
لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسحق ڈار روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم کرنے کا پرانا ریکارڈ رکھتے ہیں اور اگر اس دفعہ بھی انہوں نے ایسا کیا تو نئی حکومت کے آنے پر ڈالر یک دم 35 سے 40 روپے جمپ لگا کر پھر 240 کو عبور کر سکتا ہے لیکن ڈالر کی ذخیرہ اندوزی والی ڈار صاحب کی منطق اتنی غلط نہیں ہے۔ اس میں بینکوں اور مالیاتی کمپنیوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔
نئے وزیر خزانہ نے اپنے پیش رو مفتاح اسماعیل کے برعکس انقلابی فیصلہ یہ کیا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں 12.63 روپے کمی کا اعلان کر دیا یہ الگ بات کہ عالمی قیمتوں اور ڈالر میں گراوٹ کے بعد قیمت کم از کم 25 روپے کم ہونی چاہیے تھی مگر مفتاح صاحب آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر ہو گئے تھے اور ہمارے وزیراعظم نے عوام کے سامنے اعترافی بیان دیا کہ آئی ایم ایف نے ہمیں ناک سے لکیریں نکلوا دی ہیں۔
اس کے باوجود اسحاق ڈار نے جرأت مندانہ کام کیا ہے کہا جاتا ہے کہ پٹرول میں کمی آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر کی گئی ہے۔ یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ن لیگ کے اندر اس وقت 2 کیمپ ہیں ایک شہباز شریف اور مفتاح جبکہ دوسرا نواز شریف اور اسحاق ڈار۔ ان دونوں کی معاشی پالیسیاں جس طرح مختلف ہیں اسی طرح ان کی سیاسی حکمت عملی بھی الگ الگ ہے۔
موجودہ حالات میں ڈالر جتنا گر چکا ہے فوری طور پر کوکنگ آئل اور گھی کی قیمتوں میں 100 روپے کی کمی ہونی چاہیے جس سے مہنگائی تھامنے میں مدد ملے گی۔ جس طرح ڈالر کی قیمت جعلی طریقے سے بڑھائی گئی اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ بھی وہی ہے مگر ان پر کب ہاتھ ڈالا جائے گا۔
عمران خان نے اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں ایک دفعہ پھر لانگ مارچ کی کال دے دی ہے۔ ان کی لانگ مارچ کال کافی عرصہ سے اس چرواہے کی طرح ہے جو آئے دن کہتا تھا شیر آگیا شیر آگیا جب لوگ بچانے آتے تو کہتا میں نے مذاق کیا ہے پھر ایک دن سچ مچ شیر آگیا تو کوئی اسے بچانے نہ آیا۔ جتنی کالیں یہ دے چکے ہیں کہیں سچ مچ ہی ان کے اس tactic کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ صدر پاکستان عارف علوی کی مصالحت کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکیں حالانکہ ایک دفعہ تو وہ اسمبلی میں واپسی پر آمادگی کا اظہار کر چکے تھے۔ عمران خان کی مشاورت میں کافی مسائل ہیں اس بارے میں عدالتی و قانونی معاملات میں غلط مشاورت پر حامد خان برملا اظہار کر چکے ہیں باقی ہر معاملے میں بھی یہی حال ہے۔