پولیس کی حراست میں بائیس سالہ لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ حکومتی کوششوں اور سختیوں کے باوجودابھی تک ختم نہیں ہو سکا مظاہرین روز سڑکوں پر آتے اورحکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں پولیس کریک ڈاؤن کرتی اور لاشیں گراتی ہے غلط اور جابرانہ حکمتِ عملی کی وجہ سے اِن پُرتشدد مظاہروں میں اب تک محتاط اندازے کے مطابق 150 سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں مگرحکومتی حلقوں کی طرف سے بات چیت سے ماحول ٹھنڈاکرنے کی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی اسی بناپراب احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ دوسرے ممالک تک پھیل گیا ہے ہر عورت کو بالوں کے نت نئے سٹائل دینا پسند ہے لیکن ترکی میں ہونے والے مظاہرے میں شرکا خواتین اِس حد تک غصے میں تھیں کہ نہ صرف احتجاجاََ بال کٹوا دیے بلکہ کئی افرادنے بطور احتجاج ایرانی پاسپورٹ تک پھاڑکر پھینک دیے احتجاج کایہ سلسلہ عراق اور فرانس سمیت کئی اور ملکوں تک دراز ہونے لگاہے یہ پیغام ہے کہ حکمران سخت گیر پالیسیاں ترک کردیں مگروہ حقائق کا سامنا کرنے یا مظاہرین کے غصے کی شدت کو دلیل سے کم کرنے کے بجائے طاقت سے کچلنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے نے بھی مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے خلاف جاری احتجاج کے شرکا کو کچلنے کے لیے سکیورٹی فورسزکی طرف سے طاقت کے استعمال کی نہ صرف حمایت کردی ہے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی ہے یہ کوئی اچھا طریقہ کار نہیں ایسا رویہ یا طرزِ عمل احتجاج کو تقویت دینے کا باعث بنتاہے۔
مہسا امینی کوئی جرائم پیشہ یا کسی منشیات فروش گروہ کی رُکن نہیں تھی بلکہ وہ حجاب طریقے سے نہ کرنے کی مرتکب ہوئی تھی اسلامی طریقہ کار تو یہ ہے کہ ابتدا میں منع کیا جاتا اگرپھربھی بضد رہتی تو ہلکی سی سرزنش کے بعدلڑکی ہونے کے ناتے درگزرکرتے ہوئے چھوڑ دیا جاتامگرپولیس نے صرف گرفتار کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اُس کی موت واقع ہو گئی حجاب درست طریقے سے نہ کرنے کی پاداش میں ماری جاری جانے والی لڑکی پرتشددمیں مرد اہلکاروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اب یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر درست طریقے سے حجاب نہ کرنا جُرم ہے تو ایک نہتی عورت پر مردوں کا ہاتھ اُٹھاناکیسے اسلامی ہو گیا؟راقم باوجود کوشش کے نامحرم مردوں کی طرف سے ایک عورت پر
تشدد کا جواز قرآن و حدیث سے تلاش نہیں کر سکا ایسی سفاکیت اور طاقت کے اندھے استعمال کاسبق نہ جانے ایرانی پولیس نے کہا ں سے پڑھاہے کچھ بتانے یا اندازہ لگانے سے قاصر ہوں البتہ اِس بات میں شائبہ نہیں کہ ایران ہر معاملے کو بیرونی قوتوں سے نتھی کردیتا ہے ہر احتجاج کو امریکی اور اسرائیلی سازش کہہ کر کچل دیا جاتا ہے حالیہ مظاہروں کو بھی مذکورہ ممالک کی سازش اور سرپرستی کہا جا رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ایران میں قدامت پسندوں اور لبرلزمیں کھینچا تانی اب عروج پرپہنچ چکی ہے کیونکہ اِس وقت ایران پر قدامت پسندوں کا راج ہے ان کا لبرلز سے عدم برداشت کا رویہ ہے جو حیلے بہانوں سے قدامت پسندی کے خلاف ہر حرکت یا کوشش کو بزور طاقت کچلنے پر یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہی دراصل مہسا امینی کی ہلاکت کا باعث بنی ہے لبرلز کے ہاتھ بھی بہانہ آگیاہے وہ بھی اِس آڑ میں سڑکوں ہیں اورحجاب بارے فیصلہ کُن نرمی چاہتے ہیں ایک نہتی لڑکی سے سفاکانہ سلوک پر ملک کا ہر طبقہ غم و غصے سے بھرابیٹھا ہے مگر حکومت نے آنکھیں بندکررکھی ہیں ہر شخصی آزادی پر قدغن کا جوازطلب کر رہا ہے مگر جواب دینے کی بجائے حکومت غیرملکی سازش کہہ کر مظاہرین کو کچلنے میں مصروف ہے اِس میں ہنوزاُسے کوئی کامیابی نہیں ملی غیر ملکی سازش کے الزام میں بھی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ کسی ملک نے اگر زیرِ حراست لڑکی کو مارنے کے لیے پولیس کو استعمال کیا یا اُکسایا ہے تو ایرانی قیادت کا فرض ہے پولیس سے پاچھ تاچھ کرے جو غیر ملکی سازش میں آلہ کار بنی کیونکہ بیرونی قوتیں اگر پولیس کو اپنے اشاروں پر چلا نے پر قادر ہیں تو محاسبہ پولیس کا ہونا چاہیے اپنی عوام کو مارنے کا کوئی جواز سمجھ نہیں آتا۔
ایرانی حکومت بے جاسختیوں سے اپنے خلاف بنی فضا کو مزید ہوادے رہی ہے ایک طرف ملک میں نہتی لڑکی کو تشدد سے ہلاک کرنے کے خلاف مظاہرے عروج پر ہیں اِ ن ایام میں بھی حکومت نے اپنے طرزِ عمل سے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ امن و سکون کی فضا قائم کرنے میں سنجیدہ ہے کیونکہ دارالحکومت تہران میں ریسٹورنٹ کے اندر بیٹھ کر کھانا کھاتی ایک خاتون کو اِس بناپر گرفتار کر لیا گیا کہ وہ بغیر حجاب کھانا کھارہی تھی ایسے ہی بڑھتے واقعات پرقانون دان نسرین ستودہ کہتی ہیں کہ مظاہرین دراصل ایران میں رجیم کی تبدیلی چاہتے ہیں مظاہروں میں شریک بغیر اسکارف بال باندھتی بیس سالہ ہادیس نجفی کو اِس پاداش میں گولیاں مارکر قتل کردیا گیالڑکی کو گردن،پیٹ،دل اور ہاتھوں پر گولیاں ماری گئیں اِس قتل کا ذمہ دار بھی مظاہرین پاسدارانِ انقلاب کوٹھہراتے ہیں اِس میں سخت پیغام ہے بے حجاب پھرنے والی خواتین کے لیے، کیونکہ ہادیس نجفی نے نہ صرف بے خوف ہوکر مظاہرے میں شرکت کی بلکہ بغیر اسکارف بال باندھتے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردی اِسی بناپر عبرت کا نشان بنا دیا گئی دراصل جب لوگوں کو آزادی اظہار سے محروم کیا جاتا نیز پہناوے پر پابندیاں لگتی ہیں تو لوگ بے جا پابندیوں کے خلاف بولتے ہیں مگر حکومت جان بوجھ کراِس کا ادراک نہیں کر رہی ایسا جان بوجھ کر کیا جارہا ہے تبھی بدستور اپنے خیالات کی مقید ہے حکومت کاغیر ملکی طاقتوں پر مظاہرین کی پُشت پناہی کا الزام لگا نا دراصل سختیوں کو چھپانا ہے۔ سوشل میڈیا کے نیٹ ورکس واٹس ایپ اور انسٹاگرام کو بندکرنے کے ساتھ حکومت نے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس اور موبائل سروس معطل کردی جس سے آبادی کا بڑا حصہ رابطوں سے محروم ہے مگر تمام تر نامساعد حالات کے باوجود سوشل میڈیاپر مظاہروں کی تفصیلات موجود ہیں لیکن لگتا ہے حکمران دیکھنے،سُننے اورسمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
ایران میں ہونے والا کسی سے کچھ پوشیدہ نہیں رہا بلکہ ایرانی لوگوں کی طرح ساری دنیاشناساہوچکی ہے اور کئی ممالک سے اب تو ردِ عمل بھی آنے لگاہے امریکی محکمہ خزانہ نے مہسا امینی کی ہلاکت کا ذمہ دار اخلاقی پولیس کو قرار دیتے ہوئے اُس کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے یو این اوکے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مظاہروں کے دوران خواتین اور بچوں سمیت ہونے والی ہلاکتوں کی اطلاعات پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے مظاہرین کے خلاف غیر مناسب طاقت کا ستعمال روکنے کا مطالبہ کر دیا ہے یورپی یونین نے بھی بدترین کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کی ہے اگر پڑھے لکھے ملکی طبقے کی بات کریں تو اساتذہ بھی خاموش نہیں زنجان یو نیورسٹی میں فزکس کی پروفیسرانسیہ عرفانی نے ٹویٹر پر استعفے کا اعلان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سڑکیں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں مگر ایرانی حکومت یا پاسدارانِ انقلاب کے رویے میں کوئی فرق نظر نہیں آیا جس پر اساتذہ خاموش نہیں رہ سکتے ایسے ردِ عمل کو جھٹلانایاچھپانا آسان نہیں مگر حکومتی رویے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اختلافی آوازوں کو کچلنے اور دبانے کے عمل میں کسی کوکسی قسم کی رعایت دینے پر تیار نہیں اسی وجہ سے مظاہرے بحران میں تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔