’’گمنام ادیبــ‘‘ کے نام سے حضرت واصف علی واصفؒ کا مجموعہ مکاتیب ترتیب دیا گیاہے، اس میں ایک خط بہت اہم ہے، ایک قاری نے حضرتِ اقبالؒ کے ایک شعر کی تشریح دریافت کی‘ تواس کے جواب میں آپؒ نے اسے تحریر کیا’’ اقبال کے شعر کی تشریح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بیان کرنے والا کم از کم قلندر ہو اور سننے والا کم از کم رموزِ قلندری سے آگاہ ہو۔ اِس بات پر آپ غور کریں۔ مَیں اپنا فرض ادا کروں گا۔ آپ اپنی استعداد دیکھ لیں‘‘ محاورے صدیوں پرانی دانائی کا اظہاریہ ہیں، محاورہ ہے’’قلندر را قلندر می شناسد‘‘ اور یہ کہ ’’ولی را ولی می شناسد" ۔
قلندر کیا ہے، قلندر کو یوں سمجھ لیں: قال+ اندر۔ یعنی قلندر کا قال اندر ہوتا ہے اور حال باہر۔ ہم جس حال میں ہیں‘ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارا قال ہمارے حال سے پیش قدمی کرتا ہے، ہمارا حال ہمارے اندر ہے اورغالباً برے حال میں ہے ، اس لیے اندر چھپے رہنے پر مجبور ہے ‘صرف قال باہر ہے کہ اسی میں ہماری بچت ہے، یعنی ہماری ذات پوشیدہ ہے اور صفات ظاہر ہیں۔ قلندر اس کے برعکس ہوتا ہے، اس کا حال شدتِ احوال کے سبب باہر نمودار ہو جاتا ہے، یوں سمجھئے کہ اْس کی ذات اْس کے پردئہ صفات سے چھن چھن کر باہر آرہی ہوتی ہے، اسے صفات کے غازے اور تکلف کی ضرورت نہیں رہتی۔ قلندر سلوک کے طے شدہ راستوں میں ایک مقام نہیں بلکہ مقامات سے بے نیاز ہوتا ہے۔قلندر براہِ راست درِ علمؑ سے وابستہ ہوتا ہے ، اور اسی سبب اس کے پاس علم کی واردات ہر لمحے تازہ ہوتی ہے۔
"شب چراغ" سے ایک شعر پیشِ خدمت ہے:
ہم منزلِ بے نام کے راہی ہیں ازل سے
تْوتذکرئہ حْسنِ مقامات میں گم ہے
" ہے گردشِ دوراں کا عناں گیر قلندر"
گم کردہ روایات، مگر ذات میں گم ہے
صفات کے مقابل تو صفات موجود ہوتی ہے، صفت کے مقابلے میں صفت آسکتی ہے لیکن جہاں ذات اور جلوئہ ذات ہو،وہاں کون ٹھہرے… اقبالؒ کے سامنے کون ٹھہر سکا؟
کوئی درویش خدا مست قلندر واصفؒ
آ گیا تیرے مقابل تو وہیں مات سمجھ
صاحبو! حضرت واصف علی واصفؒ کی محافل میں ہم نے سنا کہ خودی کسی شئے کا وہ جوہر ِ ذاتی ہے کہ اگر اسے نکال دیا جائے ،تو وہ شئے ،وہ شئے نہیں رہے گی، مثلاً شاہین سے اگر قوتِ پرواز نکال دی جائے تو وہ شاہین نہیں رہے گا، مومن اپنی خودی گم کردے تو وہ ملت کا تصور ہی گم کر دے گا، مومن کی خودی عشقِ مصطفوی ﷺ ہے۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رْوحِ محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو
خودی کسی طور اَنا ، انانیت ، غرورِ نفس یا خود سری نہیں، بلکہ یہ خود داری ہے، اپنی اصل کی پہچان ہے۔نفس اپنی پہچان کرنے کے بعد اپنی خودی کو بھی پہچان لیتا ہے۔ خودی کے آئینے میں وہ اپنے مخصوص جوہرِذاتی کے سبب حقیقتِ کُل سے ایک خاص نسبت میں آجاتا ہے۔ یہیں سے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ" کا عقدہ وا ہوتا ہے۔ خودی کی پہچان،خود شناسی ہے اور خود شناس ہی خدا شناسی کی منازل طے کرتا ہے۔
خودی ایک روشن نوری نکتہ ہے جو کسی شئے کے قیام کا سبب ہے۔ کتنی پرلطف بات بیان کی گئی ہے ، اس کا الگ کوئی وجود نہیں، لیکن ہر وجود کا قیام اس کے سبب سے ہے… یہاں وحدت الوجود کی تفہیم بھی ہوتی ہے۔ وہ حقیقتِ ازلی ہر شئے کے ہمراہ ہے، لیکن کوئی اْس کے ہمراہ نہیں ، وہ اِس کائنات کے ہر ذرّے کو قوت اور زندگی دیتا ہے لیکن کوئی اسے زندگی اور قوت نہیں دیتا ہے، معلوم ہوتا ہے ، جیسے اس جوہرِ خودی کا تعلق عالمِ صمدیت سے ہے۔
قلزم کو کْل سے تشبیہ دی گئی ہے ، اور قطرے کو جزو کہا گیا ہے، قطرہ فراق سے قبل بھی وصل کی حالت میں تھا لیکن وہ اس حالت میں اپنی پہچان نہیں کرسکتا تھا، اسے اپنی پہچان کے لیے فراق کے سفر پر روانہ ہونا ہی تھا۔ دراصل بعد اَز فراق ہی وصل ‘ واصل ِ شعور ہوتا ہے۔ فنا سے گزرے بغیر بقا کا تصور محال ہے۔ معصیت کے بغیر شاید مغفرت کا شعور بھی مکمل نہ ہو سکے۔
قطرے کو جب فراق کے سفر پر روانہ کیا گیا تو وہ شعور کی مختلف وادیوں…آنسو،شبنم ،جھیل ، بادل ،دریا…سے گزرتے ہوئے آرزوئے وصل میں یم بہ یم ‘سوئے قلزم رواں دواں اور جاوداں ہوا۔ اِس سفر میں ہی اُس نے کسی مرحلۂ شوق کی طرح پہچان کے تمام مراحل طے کرنے تھے۔ اپنی پہچان کے اِس سفر میں اُس پر کھلا کہ اپنی ہستی کو گم کر دینا ہی مقصد ِ سفر ہے، یہاں اقبال ‘ رموزِ فنا وبقا کے باب میں تجدیدِفکر کرتے ہیں… وہ کہتے ہیں کہ قطرہ خود کو دریافت کرنے کے بعد قلزم میں واصل ہو کر اپنی پہچان یکسر گم نہ کردے بلکہ وہ سینۂ صدف میں اُتر جائے اور خود کو ایک گوہرِ تابدار کی صورت میں ڈھال لے ، یہ گوہرِ تابدار بھی فنا سے ہمکنار نہ ہوگا کیونکہ اسے قلزم سے نسبت حاصل ہے۔ وہ چاہتے ہیں‘ یہ گوہرِ تابدار قلزم کے ہمراہ رہے…اور تاابد رہے!! یعنی اقبال‘ اِ س عالمِ شہود میں خودی کے جوہر کی نمود اور اظہار کے قائل ہیں۔
تصوف کی تیرہ سو سالہ روایات میں اقبالؒ نے اس طور ایک فکری اجتہاد کیا ہے۔ 14 اپریل ‘ 1914ء میں اقبالؒ اپنے ایک خط بنام مہاراجہ کشن پرشاد میں لکھتے ہیں’’ یہ مثنوی جس کا نامـ ’اسرارِ خودی‘ ہے ‘ ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان‘ سکر و مستی و بے خودی کی طرف ہے، مگر قسم ہے اُس خدائے واحد کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان و مال و آبرو ہے‘ میں نے یہ مثنوی اَزخود نہیں لکھی‘ بلکہ مجھ اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا ہے‘‘ درحقیقت ہر دَور کا صوفی اپنے دَور کے طلب اور تقاضوں کے مطابق ’کتابـ‘ لے کر آتا ہے ‘ جو کتابِ مبین کی تشریح ہوتی ہے۔
خود آگاہ ، خدا مست قلندر‘اقبالؒ نے اسرارِ خودی کے بعد پھر رموزِ بے خودی بھی تحریر کی۔ ’’رموزِ بے خودی‘‘ دراصل ’’اسرارِ خودی‘‘ کا تکملہ ہے۔ اقبالؒ خود شناسی کے بعد خدا شناسی کی منزلوں سے روشناس کراتا ہے۔ اقبالؒ راہِ حق کا ایسا طالب ہے کہ اپنے کلام میں ہر طالبِ حق کے لیے قدم قدم پر سنگِ میل نصب کرتا چلا جاتا ہے۔ جہاں قوم کی خودی بیدار کرنے کے لیے اقبالؒ کا کلام اکسیر ہے ، وہاں خود شناسی کی منزلوں کی طرف بڑھتے ہوئے ایک سالک کے لیے بھی کلامِ اقبالؒ ایک کیمیا ہے۔ کلامِ اقبالؒ کے مطالعے سے ایک سالک کو یوں معلوم ہوتا جیسے اقبال‘ اس کے ہمراہ چل رہا ہے اور ایک مدبر راہ نما کی طرح اس کے راستے میں طرح طرح کے مشاہدات کے پرت کھولتا چلا جاتا ہے۔ اقبال قال سے نہیں‘ حال سے سمجھ میں آتا ہے۔ اس حیاتِ مستعار کے آخری ایام میں اقبالؒ نے ایک ایسی بات کہی‘ جسے سن کر ایک کلمہ گو دنگ رہ جاتا ہے ۔ اقبالؒ اپنے رب سے مخاطب ہو کرکہہ رہے ہیں کہ بارِ الٰہا! اگر میں نے اپنے کلام میں قرآن کے علاوہ کچھ لکھا ہو‘ تو بے شک قیامت کے دن میرے حق میں رسولِ کریمؐ کی شفاعت قبول نہ کیجئے گا۔ اتنا بڑا دعویٰ اکتسابی کلام کے متعلق نہیں ہو سکتا، یہ دعویٰ الہام ہی کے شایانِ شان ہے۔ اقبالؒکبھی مخلوق کے طرف سے خالق کے ہاں فریاد کناں ہوتا ہے ، ظاہر پرست اس واردات کو نہیں سمجھ سکے ، وہ اسے فقط شکوہ سمجھتے رہے اور فتویٰ جڑتے رہے، وہی اقبالؒ خالق کی طرف سے مخلوق سے مخاطب ہوتا ہے اور’’ جوابِ شکوہ‘‘ قلم بند کرتا ہے۔
اقبالؒ کو سمجھنے کے لیے اقبالؒ کے عشق کا قبلہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ ہمارا اقبالؒ وہی ہے جسے جلوۂ دانشِ فرنگ خیرہ نہیں کرسکا، جسے لندن کی خنک فضا آداب ِ سحر گاہی سے غافل نہ کر سکی۔ اقبالؒ کا کلام مکالمہ نہیں‘ مشاہدہ ہے۔ اقبالؒ جس کتاب کی تلاوت کرتے ہیں‘ وہ الکتاب ہے۔
لوح بھی تْوؐ قلم بھی تْوؐ ‘ تیراؐوجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ‘ تیرے محیط میں حباب
یہ شعر محض عقیدت میں بھیگا ہوا ایک نعتیہ شعر نہیں بلکہ یہ ایک ایسے صوفی کا مشاہدہ ہے جس کی آنکھ میں خاک ِ مدینہ و نجف کا سرمہ لگ چکا ہے۔ سلام ہو‘ اقبالؒ صاحبِ حال پر!!
( دبستانِ اقبالؒ میں ’’ اقبالؒ کا تصورِ خودی ‘ واصف علی واصفؒ کی نظر میں‘‘ کے موضوع پر ایک نشست میں گفتگو)