مئے فرنگ سے لبریز ہے سبوتیرا

مئے فرنگ سے لبریز ہے سبوتیرا

اپریل سے آج تک ملک انتشار اور فساد کی لپیٹ میں ہے۔ اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد! عمران خان اقتدار میں لائے بھی گئے دھونس دھمکی دھرنوں کے جلو میں۔ نکل کر بھی واویلوں، واہی تباہی کی یلغار ہے۔

ایک اندھا، گونگا، بہرا بے جہت ہجوم ہے جو سوشل میڈیا جنگجوؤں کے شعبدوں اور چلتی انگلیوں کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ امڈتے سیلابوں، عذابوں میں بھی ناچتا رہا، معیشت ڈوبتی دیکھ کر بھی، اپنے ہمہ نوع سکینڈلوں کے انکشافات پر بھی ناچنا شعار رہا۔ پاکستان پر ایمان، سیرت وکردار، نظریے سے عاری یہ ہجوم، ’فیملیز‘ کی ’ہیومن شیلڈ‘ بنائے سیاسی تفریحی میلہ ایک ہڑبڑی دھاوا بولے ہوئے ہے۔

اعصاب شکن، ڈرامائی تماشے چل رہے ہیں۔ اس کے جتھوں میں ملک سے باہر عیش کوش پاکستانی ہیں، جنہیں تفریحِ طبع اور مفادات کے تحفظ کے لیے مغربی مزاج، مغرب نواز بابو درکار ہے جو انہی کی طرح دیسی قالب اور بدیسی روح رکھتا ہو۔

دوسرا جتھا قادیانیوں کا ہے جنہوں نے اس حکومت میں اہم مناصب سمیٹے اور وہ جگہ اپنے لیے بنا لی ہے جو کبھی ممکن نہ تھی۔ شوبز، سیکولر، دین اخلاق سے فارغ نچیے گویے اہم پشت پناہ ہیں، سوشل میڈیا کی رونق۔ (مارچ کی شرمناک ویڈیوز گواہ ہیں۔) بدنصیبی سے سرکاری درباری مولوی صاحبان بھی میسر ہیں جن کی موجودگی نے عام دین پسندوں کو مطمئن کر رکھا ہے کہ جا اینجا ست! وردی والوں کی آشیرباد سے ان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا۔ عدم کارکردگی، نالائقی نااہلی، لوٹ مار، ڈوبتی معیشت، منی لانڈرنگ، چوری چکاری ان کے توشہ خانوں میں پہنچی تو حسن کہلائی۔ عدلیہ کی گود میں کالی عینک لگائے انگوٹھا چوستے خاں صاحب کو میلی آنکھ سے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ یہاں تک کہ بلی خود تھیلے سے باہر نکل کر بوتل کے جن کے سامنے آ کھڑی ہوئی!

آخر قوم اتنی بے بصیرت کیونکر ہوگئی؟مکمل بے دین،غیرذمہ دارانہ تقاریر، پریس کانفرنسوں، جلسوں میں نماز سے سب فارغ (مغرب کی نماز لٹمس ٹسٹ ہوتی ہے) رہے۔ پھر بھی خرافات کے بیچ اچانک ایاک نعبد وایاک نستعین کے ملنگیوں جوگیوں آہنگ والے نعرے لگا دینا۔ ریاستِ مدینہ، صادق وامین، جہاد، شہادت کی مقدس اصطلاحیں (شعائر اللہ پامال کرتے) فاسقانہ گستاخانہ استعمال کی گئیں۔

قوم ایک سحر، جادو ٹونہ نما مدہوشی میں رہی۔ مگر کیوں؟ اس کی وجوہات گزرے بیس سال میں بوئی گئی سیکولر ازم، نظریے کا گلا گھونٹا جانا، سیاسی، معاشرتی، تعلیمی بربادی۔ ضمیر کی مضبوط قوت کی موت۔ ہر روک رکاوٹ، حیا، غیرت کا ختم ہوکر اقوامِ عالم کے ہر عیب کو چن چن کر یہاں رائج کرنا۔ حتیٰ کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ بھی۔اس میں بڑا حصہ نیٹ فلکس ودیگر فلموں ڈراموں، شرک آلود ناولوں، خوفناک گیمز کا ہے۔ اب روح کے تشنہ، خالی گھر میں شیاطین کا بسیرا ہے۔
گزشتہ بیس بائیس سال میں نوجوان نسل پر تعلیم کے نام پر ذہن سازی فتنہئ دجال کا حصہ ہے۔ (مفصل مضمون: راقمہ کی کتاب ’کہاں سے آئے صدا‘) اسلام میں اصلاحات اور مسلم معاشروں پر اثرانداز ہونے کے لیے، کروڑوں ڈالر نفسیاتی جنگ میں جھونکے گئے۔ یو ایس ایڈ کے تحت عصری تعلیمی اداروں، مدارس اور اسلامی یونیورسٹیوں تک میں (اسلام آباد اور پوری مسلم دنیا میں!) ہمہ گیر نصابی اصلاحات ہوئیں۔ مقصد اسلامی نظریے کو خود مسلم دنیا میں شکست دینا تھا۔
یہ تمہید طولانی ہماری نوجوان نسل کا عقیدہ تباہ کرکے اسے شرک آلودہ کرنے کی ہمہ گیر، کامیاب کوششوں کا ایک ایکسرے آپ کو دکھانے کے ضمن میں ہے۔ شرک کی قباحت، شناعت شدید ترین ہے۔ ’بے شک اللہ اس جرم کو معاف نہیں کریں گے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے۔‘(النساء۔ 48)
یاد رہے کہ سبھی شرکیہ مذاہب ایک خدا پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ مظاہر کی پرستش کرتے ہیں۔ برہمنوں کے مطابق 40 کروڑ دیوتا (خدا) ہیں۔ گائے ان دیوتاؤں کی صدر، سردار ہے۔ اب یہی شرک مغربی تہذیب کا (یہود ونصاریٰ کے ہاں بھی رومی، یونانی خداؤں، دیوی دیوتاؤں کے ذریعے موجود ہے)ہمارے نوجوانوں کو گھونٹ گھونٹ پلایا جا رہا ہے۔
آج دنیا پر حکمرانی کا دعویدار امریکا جو اپنی کرنسی اور ڈالر پر In God We Trust: (ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں۔) لکھواتا ہے۔ اس عقیدے کے اظہار کے باوجود قدم قدم پر یونانی دیویوں، دیوتاؤں کا شرک بھرا گیا ہے۔
امریکا کی آزادی اور انصاف کی علامت مجسمہئ آزادی ہے۔یہ اصلاً آزادی کی رومی دیوی ’لبرٹاس‘ کا مجسمہ ہے۔ آزادی اور انصاف جو 2001ء کے بعد یکے بعد دیگرے افغانستان، عراق، شام، یمن پر چڑھ دوڑا! یہ تو سیاست ہے، ہم شرک کی بات کر رہے تھے۔ تو مغرب کا فکری ڈھانچہ پورا آلودہئ شرک ہے۔ مہینوں، دنوں کے نام سبھی رومی خداؤں، بادشاہوں کے حوالے سے ہیں۔ جنوری، Janus: رومی خدا ہے ابتدا و انتہا کا۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ…… ھوالاول والآخر والظاہر والباطن…… کا عقیدہ ہماری (تمام انسانوں کی بھی) روح میں پیوست ہے…… علی ھذا القیاس۔
آج کی نسل کے دماغوں میں دیوی دیوتاؤں کی دیومالائی کہانیوں کا بھوسا بھرنے کا زبردست انتظام موجود ہے۔ یہ ناولوں کی صورت ہے۔ ہماری نوجوان نسل کے لیے نیویارک ٹائمز Best Seller ناولوں کے ذریعے شرک کا فتنہئ عظیم پھیلایا جا رہا ہے۔ ان میں (نضر بن حارث والی) دلچسپ کہانیاں شائع کی جا رہی ہیں۔ انہی رومی یونانی خداؤں، ان کے احوالِ زندگی، شادی بیاہ، جنگیں غرض تصوراتی ہزار داستانیں چلتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہی کام مقبول کارٹون سیریز، بیٹ مین، سپرمین نوعیت کے تصوراتی کردار بھی کر رہے ہیں۔ ناولوں میں دیوی دیوتا، خداؤں کو اکیسویں صدی میں امریکا ہی میں کہیں رہتے دکھایا جاتا ہے۔

یہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی کہانیاں ہیں جو Demi Gods (نصف خدا) کہلاتے ہیں۔ یہ اس وقت وجود میں آتے ہیں جب ان کے یہ خدا آسمان سے اتر کر زمین پر آتے ہیں اور کسی انسان سے شادی کر لیتے ہیں۔ پھر جب بچہ (Demi God) ہوجاتا ہے تو واپس آسمان پر چلے جاتے ہیں۔ (استغفراللہ۔ انی بری مماتشرکون) انہی چٹ پٹی کہانیوں کو نوجوان دھڑا دھڑا خریدتے ہیں اور پڑھتے ہیں۔ ان کا مشہور مصنف Rick Riordon ہے۔ اس کی ایک ناول سیریز میں ایک مسلمان سمیرا نامی لڑکی کا کردار بھی دکھایا ہے جو حجاب پہن کر سارا دن لڑکوں کے ساتھ گھومتی پھرتی ہے اور صرف نماز کے وقت راستے میں، گرین بیلٹ پر کہیں بھی مرد وزن کے بیچ جائے نماز بچھاکر نماز بھی پڑھ لیتی ہے۔

اس کے عقائد یہ بتائے گئے ہیں کہ وہ کہتی ہے کہ میں اللہ کو مانتی ہوں جو بڑا خدا اور میں ان چھوٹے خداؤں کو بھی مانتی ہوں۔ اس تلبیس ابلیس پر جوان ناولوں میں ہے، ہمارے نوجوان جو پہلے اسے صرف تخیلاتی، تصوراتی (Myth) سمجھ کر پڑھتے تھے اب اسے سچ بھی سمجھنے لگے ہیں۔ان ناولوں میں دلچسپی اور لذت انہیں شرکیہ دلدل میں دھنسا رہی ہے۔والدین انگریزی کے شوق میں فخریہ پیسہ اس پر لٹا رہے ہیں۔اسی فکرونظر نے شیطانی ہیلووین اور ہندو شرک میں ڈوبے تہوار دیوالی اور ہولی عام کر دیئے۔

بڑی یونیورسٹیوں میں یہ سارے تماشے اختلاط سمیت ڈٹ کر انتظامیہ کی سرپرستی میں منائے جا رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمان،کشمیری اپنا جان و مال دا ؤ پر لگا کر اپنی نماز،مساجد اور دینی شعار بچا رہے ہیں۔25مسلمانوں کے گھر بلڈوز کر دئیے گئے۔ یہ انہیں جا کر رواداری تو پڑھا دیں۔یہاں (دولت کی) لکشمی دیوی اور وشنو دیوتا (نعوذباللہ، کائنات کا محافظ، پناہ دینے والے خدا) کی شادی، دیوالی منانے کے بجائے! ’ان سے کہو،بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ! کہو، پھر کہاں سے تمہیں دھوکا لگتا ہے۔‘ (المومنون۔ 88-89) ہر باشعور، صاحبِ ایمان اور دینی جماعتوں کو ان شرور کے آگے مو ئثربند باندھنا ہو گاورنہ شیطانیت سیلابِ بلا بنی امڈی چلی آ رہی ہے۔ برین واشنگ نوجوانوں سے اسلام سلب کر رہی ہے۔
مئے فرنگ سے لبریز ہے سبو تیرا
تری خطا ہے یہ فطرت کا اہتمام نہیں!

مصنف کے بارے میں