اسلام آباد : حکومت نے ٹی ٹی پی کے قیدی رہا کرنے کی شرط مان لی ۔ کئی اہم طالبان قیدی جلد رہا ہوجائیں گے بعض نے تو اپنے گھروں میں فون کرکے رہائی کی اطلاع بھی دے دی ۔
تفصیلات کے مطابق حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرا ت میں پیش رفت ہوئی ہے ۔ جس کے تحت حکومت نے ٹی ٹی پی کے قیدیوں کو رہا کرنے کی حامی بھرلی ہے جس کے بدلے میں تحریک طالبان پاکستان سیز فائر کا اعلان کرے گی ۔
ذرائع کے مطابق حکومت کی طرف سے پہلے مرحلے میں محمود خان، مسلم خان اور مولوی عمر سمیت 102 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے گا ۔ حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن معاہدہ چند روز میں منظر عام پر آئے گا، امن مذاکرات رواں برس فروری میں شروع ہوئے تھے، جس میں افغان طالبان نے ضامن کا کردار ادا کیا، البتہ پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی ترجمان محمد خراسانی نے باضابطہ طور پر اس پیش رفت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ کچھ قیدی جن میں سوات کی اعلیٰ طالبان قیادت بھی شامل ہے ان میں محمود خان اور مسلم خان کو ممکنہ رہائی کے پیش نظر افغانستان لے جایا گیا ہے، مسلم خان، طالبان سوات کے ترجمان تھے، انہیں اور محمود خان سمیت کچھ سینئر طالبان رہنماؤں کو سیکورٹی حکام نے 2009 میں اجلاس کے لیے بلایا تھا لیکن اس کے بعد وہ واپس چلے گئے تھے، یہ رپورٹس بھی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان مولوی عمر بھی پہلے مرحلے میں رہائی پانے والوں میں شامل ہیں۔
حکومت یاٹی ٹی پی کی طرف سے اس بارے میں باضابطہ طورپر کسی پیش رفت کی تصدیق نہیں کی گئی البتہ کچھ قیدیوں نے اپنے گھروالوں کو 13 برس بعد فون کرکے اپنے بارے میں بتایا ہے اور جلد واپسی کی بات بھی کی ہے ۔
یاد رہے کہ امن مذاکرات پہلے رواں برس فروری میں قبائلی ضلع باجوڑ سے شروع ہوئے تھے جب مولوی فقیر محمد کے قریبی کچھ مذہبی قبائلی رہنماؤں نے حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان فرق کو ختم کروانے میں اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ مولوی فقیر محمد باجوڑ میں ٹی ٹی پی رہنما تھے اور کبھی وہ حکیم اللہ محسود کے بعد سب سے اہم سمجھے جاتے تھے، افغان افواج نے انہیں افغانستان میں گرفتار کرکے بگرام جیل منتقل کردیا تھا۔
وہ ان ہزاروں قیدیوں میں شامل تھے جنہیں افغان طالبان نے قابل پر قبضے کے بعد رہا کیا تھا، جب کہ پاکستانی طالبان نے انہیں خوش آمدید کہا اور ایک بڑے قافلے میں کنڑ لے جایا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ جب پہلے حکومتی اور فوجی حکام سے ملے تھے تو انہوں نے امن مذاکرات پر اتفاق کیا تھا اور انہیں افغانستان میں پاکستانی طالبان رہنماؤں سے رابطے کا کہا گیا تھا۔