وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے بعد مہنگائی کا ایک اورسونامی پھر سے پاکستانی عوام سے ٹکرا گئی ہے۔ اس کے بعد عوام جن الفاظ سے پی ٹی آئی کو یاد کر رہی ہے وہ میں یہاں لکھ نہیں سکتی۔وزیراعظم ایک طرف راشن منصوبے کے ذریعے آٹا،دالیں اور گھی 30%سستا کرنے کا اعلان کر رہے تھے تو دوسری طرف ان کی حکومت گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں 65روپے فی کلو اضافہ کر چکی تھی اور چینی 140 سے150 روپے میں فروخت ہونا شروع ہوگئی ۔پٹرول 8روپے فی لیٹر کے بعد 146روپے ہوگیا۔:واہ رے تبدیلی سرکار: تمہاری کیا بات ہے۔ اب بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں کہ حکومت نے جس سبسڈی پروگرام کا اعلان کیا ہے اس پر اب کیسے عمل ہو گا۔ یہ سبسڈی غیر واضع ہے کیونکہ اس میں یہ نہیں بتا گیا کہ حقدار افراد اس سبسڈی سے کس طرح فائدہ لے سکتے ہیں۔ کون لوگ اس کے اہل ہوں گے۔غریب اور ضرور مند کا تعین کس طریقے سے ہوگا؟ حکومت احساس پروگرام میں 12000 ہزار روپے 3ماہ کے بعد دے رہی ہے۔ یعنی 4000 ہر ماہ اور روزانہ کے 133روپے ،اب یہ بات عقل سے باہر ہے کہ 133روپے میں گھر کا گزارہ کیسے ہوگا۔اسی وجہ سے آنے والے دنوں میں اس سبسڈی کی افادیت بھی ایسے سوالات سے ثابت ہوگی۔غریب طبقے کو یکساں کوریج دے سکے گا؟ مجھے تو ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے حکومت نے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کا لائسنس منافع خوروں کو دے دیا ہے۔حکومت کو چھوٹے اور درمیانے تنخواہ دار اور مڈل کلاس اور چھوٹے کاروباری افراد کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی مگر حکومت اس میں بری طرح ناکام رہی، ان تین برسوں میں ان لوگوں کے اخراجات میں اضافہ ہی ہوا ہے مگر آمدنی دن بدن کم ہی ہوتی گئی ہے۔
اس وقت پاکستانی عوم مہنگائی اور بیروزگاری کی سونامی سے گزر رہی ہے قیمتیں جس رفتار سے بڑھ رہی ہیں اس رفتار سے عوام کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہو رہا ،پاکستان میں سرمایہ ہی منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ملکوں میں چلا جائے گا اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں ہو گی اور صنعتیں نہیں لگیں گی تو روزگار کیسے لوگوں کو ملے گا۔
اب عوام اس ملک کے آٹا اور چینی مافیا سے واقف ہو چکی ہے۔ عوام اب یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب لوگ کسی نہ کسی طریقے سے حکومت کا حصہ یا پھر اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں جو بنیادی ضرورت کی ان اہم اشیاء پر منافع لے رہے ہیں۔ان کی لوٹ مار جاری ہے اور یہ لوگ ہر سال سینکڑوں ارب روپے کا منافع باآسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ان اسمبلی میں بیٹھے منافع خوروں کی وجہ سے لاکھوں لوگ فاقوں پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں ،پاکستان میں معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ مگر ہماری اسمبلی میں بھی غریب کیلئے بات نہیں کی جاتی وہاں پر بھی اپنے اپنے کیسز یا پھر فنڈ پر بات کی جاتی ہے۔ افسوس اسی اسمبلی پر۔
حکومت یہ کہتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے جو طبقہ ٹیکس نہیں دیتا وہ تو اس ملک کا سرمایہ دار، گدی نشین، قبائلی سردار، وڈیرے اور بڑے بڑے سردار ہیں۔ جبکہ غریب آدمی تو بجلی کے بل ،پٹرول ،چینی، چائے، آٹا یہاں تک کہ ماچس پر بھی ٹیکس دیتا ہے یعنی بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے اور بڑی بڑی گاڑیوں والے لوگ ایک غریب آدمی کے برابر ٹیکس دیتے ہیں۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ حکمران جس ملک کو سستا ترین ملک کہہ رہے ہیں اس ملک میں سستی صرف انسانی زندگی ہے اور مہنگی روٹی ہے۔
ان تین سالوں میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہوئے اور لوگوں کے بیروزگار ہونے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور ناجانے یہ کب اور کہاں جا کر رکے گا۔ آپ اگر اشیاء خورونوش کی قیمتوں کا جائزہ جو اگست 2018میں تھیں اور آج تین سال بعد 2021ان کی قیمیں کہاں پر ہیں تو آپ حیران ہو کر رہ جاتے ہیں۔ چینی 55روپے تھی اور آج 140سے 150روپے فی کلو ہے ،آٹا 36 روپے فی کلو تھا اور آج 72 روپے فی کلو ہے،کوکنگ آئل 170روپے تھا آج 390روپے کا ہے۔ اسی طرح دوسری اشیاء خورونوش میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت گڈ گورننس کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے ریاست اور عام آدمی کی زندگی میں مسائل پیدا ہوئے اور ناقص گورننس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی سونامی عوام سے ٹکرا جاتی ہے مہنگائی کے ساتھ ساتھ کرپشن بھی اب اپنے عروج پر جا رہی ہے۔پولیس اور بیوروکریسی میں آئے روز اکھاڑ پچھاڑ اور کئی لوگوں کو معطل کرنے کے علاوہ اس حکومت نے کوئی کمال کا کام نہیں کیا۔اگر ہم اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو بیوروکریسی نے بھی اس حکومت کے لئے نو لفٹ کا بورڈ لگا دیا ہے جس کی وجہ سے اس حکومت کی مقبولیت عوام میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب وہ لوگ جو منتخب ہو کر اسمبلی میں گئے تھے پریشان ہیں کہ وہ کس طرح اب عوام کو اس مہنگائی کو جواب دیں۔ میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو اب پی ٹی آئی کی جگہ کسی دوسری جماعت میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اب عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دینا۔