غالباً 1988 کے انتخابات تھے مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو انتخابی مہم کے سلسلے میں نسبت روڈ، گوالمنڈی، لکشمی چوک گویا اندرون لاہور کے اس علاقہ کے حلقہ میں جلوس لیے نکلی ہوئی تھیں۔ میاں محمد نوازشریف نے رات کو سرکاری ایجنسیوں سی آئی ڈی، سپیشل برانچ، آئی بی و دیگر کے افسران و اہلکاروں سے پوچھا کہ بیگم نصرت بھٹو کے جلوس میں کتنے لوگ تھے۔ سرکاری اہلکاروں کے چیف نے کہا کہ سر 4/5 ہزار لوگ ہوں گے۔ میاں صاحب کے سامنے اندرون شہر کے لاہوریے جن میں اکثریت کشمیریوں کی تھی، دوسری لوگ بھی تھے۔ سرکاری اہلکار ان کرسیوں کے پیچھے قطار میں کھڑے اور ہر طرف سے 4/5 ہزار لوگوں کی آواز آئی ایک روایتی لاہوریے نے گردن موڑ کر سرکاری اہلکاروں کی طرف دونوں ہاتھ جوڑ کر مخصوص لہجے میں کہا ’’او میاں صاحب نوں کیوں مڑوانا جے‘‘۔ میاں صاحب کو مخاطب کیا اور کہنے لگا کہ میاں صاحب ان لوگوں نے ایوب خان، یحییٰ خاں کا ایسی رپورٹیں دے کر خانہ خراب کیا، ملک دو ٹکڑے کرا دیا۔ بھٹو صاحب کو شہید کرا دیا، ان کی باتوں پر نہ جانا۔ بیگم نصرت بھٹو کے جلوس میں پورا لاہور شامل تھا۔ گنتی کرنا ممکن نہیں، ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ تھے۔ حکمران جب اقتدار کے سنگھاسن پر ہوتے ہیں تو سچ سے الرجی ہو جایا کرتی ہے۔ اپنی پسند کا گیت، سنگیت سننا پسند کرتے ہیں۔
کہتے ہیں ناں کہ ساون کے اندھے کو سب ہرا ہی نظر آتا ہے۔ شاید اقتدار میں آتے وقت جو سماں ہوتا ہے وہ آنکھوں میں گھومتا اور مزید سہانا ہوا چلا جاتا ہے۔ عمران خان جنرل حمید گل سے اب تک گود سے گود کا سفر کر کے حاکم مسلط ہوئے! چلیں حلف اٹھا لیا، آئنی وزیر اعظم ہو گئے، کچھ عوام کا سوچتے مگر ان کے اندر کا لڑکا ایک پل کے لیے بھی باشعور نہ ہو سکا۔ اقتدار نے ان کو کنٹینر سے اترنے نہ دیا۔ ابھی پرسوں قوم کا قیمتی ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت برباد کر کے تقریر کی، قوم نے اعتبار تو نہ کیا مگر ریلیف اور پتہ نہیں کیا کیا دعوے، وعدے اور باتیں کر گئے اور آج پٹرول 146، چینی 150، مٹی کا تیل 117، ڈیزل 143، گوشت چھوٹا 1500 روپے، بڑا 800 روپے، مرغا نہ جانے کہاں چلا گیا۔ دوائیاں اور جعلی دوائیاں بچوں نہیں پیسے والوں کی پہنچ سے بھی دور ہو گئیں۔ انقلابی وزیر اعظم نے پہلے اپنی الزام، بہتان، تہمت بھری تقریروں سے بچوں کو والدین، بیویوں کو خاوندوں، بیٹوں، بھائیوں، یاروں دوستوں، قومیتوں کو ایک دوسرے کے سامنے بد لحاظی کے عروج پر کھڑا کر دیا۔ جیسی اپنی زبان اور گفتار تھی اسے چار ہاتھ آگے وزراء اور مشیروں کی زبانیں اور فالوورز نے اپنا لیا۔
اقتدار میں آ کر بیوروکریسی، عدلیہ، اداروں کو آپس میں برسرپیکار کر دیا۔ نیب کی حیثیت انتقام کے سوا کچھ نہ رہ گئی۔ ایک ایسا ادارہ بنا دیا گیا جو صرف آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے خاندان کے گرد درے لے کر گھومنے لگا۔
پھر آگے بڑھے اور وطن عزیز میں مذہبی جماعتوں کے مسالک کو برسرپیکار کیا۔ دکھ یہ ہے کہ یہ سب طاقتور اداروں کے سامنے ہوا اور ان کی اعانت و مدد کا حکومت چرچا بھی کرتی رہی، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر میاں نوازشریف تو درکنار مریم نواز پنجاب میں بلاول بھٹو سندھ، گلگت، جنوبی پنجاب میں ٹکٹ دیں تو مقابلے میں حکومتی اتحاد کی ضمانت ضبط ہو جائے بلکہ ٹکٹ لینے والا کوئی نہ ہو گا، مگر کیا کیا جائے وزیراعظم فرماتے ہیں ’’جنسی جرائم میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے‘‘۔
’’شہبازشریف سے ہاتھ ملانا کرپشن سے ہاتھ ملانا ہے‘‘۔ حضور وزیراعظم صاحب! اب آپ اس جگہ پر بھی نہیں ہیں جہاں 2014 کے دھرنے میں تھے۔ اس وقت آپ تیسرے نمبر پر بھی نہیں تھے۔ آپ اب تک کنٹینر سے نیچے نہیں اترے اور عوام زندہ درگور ہو گئے۔ اب آپ اپنے وزیراعظم بننے سے پہلے تمام تقریروں میں جہاں جہاں میاں صاحبان اور آصف علی زرداری کا نام لیتے رہے ہیں، اپنا نام فٹ کر لیں۔ ساون کے اندھے کی طرح اب بھی سب ہرا نہ سمجھیں، قحط پڑ چکا۔ حالیہ دنوں میں پولیس کو نہتا کر کے بعد ازاں افسران تبدیل کر دیئے کہ ٹی ایل پی مارچ نہ روک پائے جبکہ ایک پولیس افسر نے جو آئی جی کو خط لکھا ہے اس میں پولیس کی بے سر و سامانی بتا دی گئی ہے اور رینجرز کی کارکردگی سے بھی پردہ اٹھا دیا گیا ہے۔ مفتی منیب صاحب قابل احترام مگر آئنی حیثیت سوالیہ نشان ہے۔
ایسا دور کیا کسی نے اس سے پہلے کبھی دیکھا ہو تو ضرور بتائے کہ اقتدار کی جنگ نہ سرحد کا جھگڑا اور نہ نظریات کا اختلاف، عشق رسولؐ کے دعویداروں کے ہاتھوں جوان غلامان رسول شہید ہو رہے ہوں۔ اس یدھ کو جہالت و شعور، مفاد و ذمہ داری کا یدھ کہا جائے گا کہ کچھ اور۔
میرے گزشتہ کالم ’’پون صدی کا قصہ‘‘ ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے گوجرانوالہ کے معروف شاعر اور قانون دان جناب حافظ انجم سعید لکھتے ہیں کہ آصف عنایت کی عنایات عوام کے سلگتے مسائل اور سلگتے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک سلگتے کالم کی صورت مسلسل جاری ہیں۔ ’’پون صدی کا قصہ‘‘ کے عنوان سے آصف نے بیک وقت کئی بجھی، کئی دبی اور سلگتی چنگاریوں کی طرف نشاندہی کی ہے اور ہماری سیاست کے بازی گر مذہب کے لبادے میں کیا کیا اور کس کس طرح سیاست کا گھناؤنا کھیل کھیلتے رہے ہیں اور کھیلتے آ رہے ہیں۔ اس پر بڑے دکھ اور فکر کا اظہار کیا ہے اور اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پولیس کانسٹیبل غلامِ رسول کو حضرت محمدﷺ کا ایک غلام یا عاشق ہی موت کے گھاٹ اتار رہا ہے اور جو لوگ واقعتاً اس توہین رسالت کے مرتکب ہوئے وہ نہ صرف چین کی نیند سو رہے ہیں بلکہ ہمارا تماشا بھی دیکھ رہے ہیں اور پوری دنیا کو دکھا بھی رہے ہیں۔ کہ نعوذ باللہ محمدﷺ کے نام لیوا ایسے ہوتے ہیں جو تیزی سے Conversion ہو رہی ہے اسے تیزی سے روکا جائے۔ اس کشت و خون پر ہر سچا عاشق رسولؐ دکھی اور ذہنی طور پر زخمی ہے سوائے منافقین اور اندر کے سازشیوں کے۔ خدا کے لیے سنبھل جاؤ، ہوش سے کام لو۔ یہ معاملہ محض مسلمانوں اور انسان کا نہیں ہے۔ براہ راست جس کا ہے اگر اس نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تو ہاتھ ملنے کے قابل بھی نہیں رہو گے!!!
حکمران ساون کے اندھے ہیں، قوم آپس میں برسرپیکار ہے اور آسمان پہ بربادیوں کے مشورے ہیں۔