لاہور: بلاول بھٹو زرداری نے یہ واضح کیا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ہرگز یہ مطالبہ نہیں کہ فوجی قیادت عہدے سے دستبردار ہو جائے۔ فوجی قیادت کا نام لینا میاں نواز شریف کا ذاتی فیصلہ ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ انہیں انتظار ہے مسلم لیگ (ن) کے قائد میان نواز شریف کب ثبوت پیش کرتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں چیئرمین پیپلز پارٹی نے بتایا کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت اتفاق رائے سے طے پایا تھا کہ کسی ایک ادارے کا نہیں بلکہ لفظ ''سٹیبلشمنٹ'' کہا جائے گا۔ اس لیے گوجرانوالہ جلسے میں جب نواز شریف نے براہ راست نام لیے تو انہیں "دھچکا "لگا۔
بلاول بھٹو کے بقول یہ ان کے لیے ایک دھچکا تھا کیونکہ عام طور پر ہم جلسوں میں اس طرح کی بات نہیں کرتے، مگر نواز شریف کی اپنی جماعت ہے، وہ انہیں یا وہ مجھے کنٹرول نہیں کر سکتے کہ کیسے بات کریں۔
ایک سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ہرگز یہ مطالبہ نہیں کہ فوجی قیادت عہدے سے دستبردار ہو جائے۔ ان کے نزدیک عمران خان کی حکومت لانے کی ذمہ داری کسی شخص پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ موجودہ حکومت عوام کا اعتما کھو چکی ہے۔
بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا کہ ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن قائم کیا جائے اور پاکستان میں ہر ادارہ اپنا کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میں رہنے کا جواز عوام کا اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد موجودہ حکومت کھو چکی ہے۔ انھوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گرتی معیشت کا الزام پی ٹی آئی پر لگاتے ہوئے اسے ایک نااہل حکومت قرار دیا۔
پی ڈی ایم کے کراچی میں جلسے کے بعد آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا، ایف آئی آر کے لیے دباؤ، مریم نواز شریف کے شوہر کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑ کر داخل ہونے کی کوشش کے معاملے پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ اس معاملے پر ان کا آرمی چیف سے دوبارہ رابطہ نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ مگر یہ علم ہے کہ اس معاملے پر انکوائری چل رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر تحقیقات مکمل کی جائیں گی اور قصوروار افراد کا تعین کر کے انھیں سزا بھی دی جائے گی۔ میں اس وقت صبر سے انتظار کر رہا ہوں کہ مجھے اس انکوائری سے متعلق آگاہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ان علاقوں میں اپنے منشور کے ساتھ گئے ہیں جہاں اس سے پہلے کوئی لیڈر نہیں گیا تھا۔ میں نے تمام سفر بذریعہ سڑک کیا ہے اور میں ان راستوں پر چلا ہوں جن سے ان دیہاتوں میں رہنے والے عام لوگ ہر روز گزرتے ہیں اور میں اسی لینڈ سلائیڈنگ میں پھنسا رہا ہوں جن میں یہ لوگ کئی دن اور کئی ہفتے پھنسے رہتے ہیں۔ یہ سفر اور لوگوں کا خلوص مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ان دور دراز علاقوں میں بھی خواتین میں سیاسی شعور نے انھیں بے حد متاثر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے لوگوں کے حقِ حکمرانی اور حقِ ملکیت کے لیے کام کر رہی ہے اور یہی ان انتخابات میں ان کا نعرہ ہے۔
اس سوال پر کہ کیا مسلم لیگ کی طرح انھیں بھی کسی قسم کے دباؤ کا سامنا رہا ہے، انہوں نے جواب دیا کہ یہ ان کا مطالبہ رہا ہے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوں اور فوج پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر موجود نہ ہو۔
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کے اعلان کو انتخابات سے قبل دھاندلی کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی گلگت بلتستان کے لیے یہ پوزیشن دے چکی تھی ’ہم نے گلگت بلتستان کو نام دیا ہے، کمیٹی بٹھائی، اسمبلی دلوائی، وزیراعلیٰ اور گورنر بھی دیا اور یوں ہم نے تو عبوری درجہ پہلے ہی دے دیا تھا، اب تو ہم اس سے آگے کی بات کر رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا وہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ معاملہ پارلیمان میں آنے کی صورت میں پی ٹی آئی کی حمایت کریں گے، بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان پر زیادہ اعتبار نہیں کرتے کیونکہ عمران خان ’یوٹرن‘ لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ عمران اہنے ہر وعدے سے مکر جاتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے انہوں نے جنوبی پنجاب کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ سو دن میں انھیں صوبہ بنا دیں گے، مگر یہ نہیں کیا۔ تو ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کیونکہ اگر وزیراعظم انتخابات سے قبل یوٹرن لے سکتے ہیں تو انتخابات کے بعد بھی لے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کئی وفاقی وزرا گلگت بلتستان کو علیحدہ صوبہ بنانے کی مخالفت کر چکے ہیں اور اس ضمن میں ان کی جماعت کی ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ ’اصل بات ہے منشور کی اور اس وقت پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جس کے منشور میں سنہ 2018 میں بھی گلگت بلتستان کو اس کے مکمل آئینی حقوق دیے کی بات شامل کی گئی تھی۔