اسلام آباد:سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نےپی ٹی ائی کی سیٹیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں میں کہا کہ پی ٹی ائی کی سیٹیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر رہے ہیں، ان درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کر رہے ہیں۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن کو فوری طور پر طلب کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو باضابطہ نوٹس جاری کیے تھے اور وفاقی حکومت کابینچ پردائراعتراض مستردکرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ساڑھےگیارہ بجے تک ملتوی کر دی تھی۔
سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کی۔ سنی اتحاد کونسل کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے وکیل خواتین ارکان اسمبلی نے موقف دیا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے۔مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس پانچ رکنی بینچ سن سکتاہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ پر اعتراض مسترد کر تے ہوئے کہا کہ ابھی تو ابتدائی سماعت ہے،اگر اپیلیں قابل سماعت قرار پائیں تو کوئی بھی بینچ سن لے گا، اس سٹیج پر تو دو رکنی بینچ بھی سماعت کر سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے بھی تین رکنی بینچ پر اعتراض کیا گیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اپیلیں لارجر بینچ ہی سن سکتا ہے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت اپیل میں سن رہے ہیں، موجودہ کیس آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر نہیں ہوا۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ابھی تو اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ ہونا ہے، قابل سماعت ہونا طے پا جائے، پھر لارجر بینچ کا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آزاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سات امیدوار تاحال آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا حصہ ہیں؟جسٹس اطہر من اللّٰہ نے پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟
فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے صرف الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آزاد اراکین کو کتنے دنوں میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد اراکین قومی اسمبلی کو تین روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟ جس پر فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے اور آزاد جیتے ہوئے اراکین اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے، سیاسی جماعت کیا اپنی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں لے گی یا زیادہ بھی لے سکتی ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے، اصل مسئلہ عوامی مینڈیٹ ہے، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کو جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی نشتسیں انہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی، ہمیں پبلک مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے اصل مسئلہ پبلک مینڈیٹ کا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہی سوال لے کر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک بات تو طے ہے جس جماعت کی جتنی نمائندگی ہے اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا مینڈیٹ کسی اور کو دے دیا جائے؟ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے فوری طور پر الیکشن کمیشن حکام کو طلب کر لیا اور سماعت میں 11 بج کر 30 منٹ تک وقفہ کر دیا۔
کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور ڈی جی لا الیکشن کمیشن عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایک سوال ہے کیا بانٹی گئی نشستیں دوبارہ بانٹیں جا سکتی ہیں، دوسرا یہ کہ مخصوص نشستیں اس لیے بانٹی گئیں کہ ہاؤس پورا ہو، اس میں کہاں غلطی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کسی امیدوار نے سیاسی جماعت جوائن نہیں کی تھی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آزاد امیدواروں کی نشستیں دیگر جماعتوں کو بانٹی جاسکتی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہے کہ عوامی امنگوں کے مطابق امور انجام دیئے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا دوسرے مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں، باقی نشستیں انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟ کیا باقی بچی ہوئی نشستیں بھی انہیں دی جاسکتی ہیں؟قانون میں ایسا کچھ ہے؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اگر قانون میں ایسا نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی اسکیم کے خلاف نہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سوموٹو اختیار سے بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہیں جماعتوں کو نہیں دی؟۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جو کام ڈائریکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہوسکتا، ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے؟
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔
یاد رہے کہ 14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔