گزشتہ کئی دنوں سے اخبارات پڑھنے اور ٹی وی چینلزدیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ کل کافی دن بعد ملکی حالات کی خبرلینے کے لئے ٹی وی آن کیا ، تو نہایت مایوسی ہوئی۔ اگرچہ وفاقی حکومت کو رخصت ہوئے ایک ماہ کا عرصہ ہونے والا ہے۔پنجاب میں بھی سیاسی ماردھاڑ کے بعد تبدیلی آ چکی ہے۔ یہ تبدیلی کچھ اس طرح آئی کہ سیاسی جماعتوں کو بار بار عدالت کا رخ کرنا پڑا۔ کل شام کچھ دیر کے لئے ٹیلی ویژن چینلز دیکھے تو اندازہ ہوا کہ وفاق اور پنجاب میں آنے والی تبدیلی کے باوجود سیاسی حالات جوں کے توں ہیں۔ تسلیم کہ چند دنوں میں قومی مسائل کا حل ممکن نہیں۔ راتوں رات معیشت کی سمت درست ہو سکتی ہے نا ہی بیروز گاری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دوسرے ملکوں سے دوستانہ تعلقات قائم ہو سکتے ہیں اور نا ہی تعلیم ، صحت، اور امن عامہ جیسے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ مگر مجھ جیسے غریب عوام یہ امید ضرور رکھتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد انہیں کچھ عرصہ سکھ کا سانس لینا نصیب ہو ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وفاق اور پنجاب میں آنے والی تبدیلی کے باوجود، ملکی سیاست میں برپا تلاطم ہنوز اپنی جگہ پر موجود ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے نمائندے مسلسل پریس کانفرنسیں کرنے میں مصروف ہیں۔ویسی ہی باتیں سننے کو مل رہی ہیں جو عمومی طور پر حزب اختلاف کی جماعتیں کیا کرتی ہیں۔ وہ حکومت جس کی عمر ایک ماہ بھی نہیں ہوئی۔ اس پر تنقید کی جا رہی ہے کہ عوام الناس کی زندگی کس قدر دشوار ہو چلی ہے۔ مہنگائی نے ان کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ پٹرول کی قیمت بہت زیادہ ہے اور اسے کم ہونا چاہیے۔ معیشت کی صورتحال بے حد نازک ہے۔ خارجہ امور کی سمت بھی درست نہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں سن کر خیال آتا ہے کہ دردمندی کی یہ سب باتیں تحریک انصاف کو اس وقت یاد کیوں نہ آئیں جب وہ برسر اقتدار تھی۔ ساڑھے تین برس کے عرصہ حکومت میں اسے عوام کے حالات زندگی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے تھی۔
دوسری طرف حکومت بھی کسی سے کم نہیں۔ حکومتی وزیر، مشیر بھی اپوزیشن کی پریس کانفرنسوں کے بعد جوابی پریس کانفرنسیں کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔ ان کے الزامات کو رد کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں ہونے والی کوتاہیوںاور غلط فیصلوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ گزشتہ حکومت میں ہونے والی مالی بد عنوانیوں کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ دونوں طرف کی باتیں سن کر افسوس ہوتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ نجانے کب تلک میرے ملک میں یہ سیاسی کھیل تماشا جاری رہے گا؟ الزام تراشی کا یہ سلسلہ کہاں جا کر ر کے گا اور عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہو گا؟
دنیا بھر میں حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ اپنی مدت مکمل کرتی ہیں ۔ ان کی جگہ پر نئی حکومت بر سر اقتدار آ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومتیں تبدیل ہونا بھی معمول کے معاملات ہیں۔ اس میں کوئی انہونی بات نہیں۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد کوئی سیاسی طوفان برپا نہیں ہوتا ۔ لیکن ہماراباوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی افق پر ہر آن انتشار اور افراتفری کی کیفیت طاری رہتی ہے۔نہ عوام کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوتا ہے اور نہ ملک کو ا ستحکام ۔دنیا کے مہذب ممالک میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی نہایت اہم ہوتی ہیں۔ حکومت کاروبار مملکت چلاتی ہے۔ جبکہ اپوزیشن کے ذمے یہ کام ہوتا ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر نگاہ رکھیں۔ مفاد عامہ کے تناظر میں حکومتی اقدامات کا جائزہ لیں ۔ حکومت پر جائز تنقید کریں اور غلط فیصلوں پر حکومت کی گرفت کریں۔ ہمارے ہاں مگر تنقید برائے تنقید کا رواج ہے۔ اچھے خاصے عوامی منصونے بھی سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ برسوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے اور نجانے کب تک ہوتا رہے گا۔
بہرحال اب جبکہ مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں ایک حکومت قائم ہو چکی ہے، اس کو چاہیے کہ اپنی توجہ عوام الناس کی خدمت کی طرف مبذول کرئے۔ عوام کی اکثریت کو حکومت اور اپوزیشن نمائندوں کی طرف سے ہونے والی پریس کانفرنسوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ الزام تراشی اور تنقید برائے تنقید کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے بھی وہ بیزار ہو چلے ہیں۔ انہیں کوئی سروکار نہیں کہ گزشتہ حکومت غیر ملکی سازش کی وجہ سے گئی ہے یا پھر ایک آئینی طریقہ کار کے مطابق ہٹائی گئی ہے۔ انہیں توشہ خانہ کے تحائف گھر لیجانے سے دلچسپی ہے نہ ہی فرح گوگی کی کرپشن سے۔ عوام الناس کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ان کے روزمرہ زندگی سے متعلق مسائل حل ہوں۔ انہیں دو وقت کی روٹی میسر آئے۔انہیں مہنگائی کے بوجھ سے نجات ملے اور اشیائے ضروریہ مناسب قیمتوں پر دستیاب ہوں۔ عوام یہ چاہتے ہیں کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتیں جو آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، وہ کم ہوں تاکہ انہیں ریلیف ملے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہوں اور ادویات مناسب نرخوں پر میسر ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم کے مواقع فراہم ہوں۔ انہیں نوکریاں ملیں اور وہ آسانی سے کاروبار کرنے کے قابل ہوں۔ عوام چاہتے ہیں کہ امن عامہ کے حالات بہتر ہوں تاکہ وہ چین سے زندگی بسر کر سکیں۔
موجودہ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اپنی توجہ ان امور کیطرف مبذول کرئے۔ حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سعودی عرب کا تین روزہ دورہ کیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ دورہ معاشی لحاظ سے کامیاب رہا ہے۔ سعودی عرب نے آٹھ ارب ڈالر کا پیکج دینے کا وعدہ کیا ہے۔ سنتے ہیں متحدہ عرب امارات کے دورے میں بھی وزیر اعظم شہباز شریف کو پاکستان کی معیشت کی بحالی کے حوالے سے مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ حکومت نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ اعلان وقتی نہ ہو۔ موجودہ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے پاس صرف سال ڈیڑھ سال کا عرصہ ہے۔ یا شاید اس سے بھی بہت کم۔ ضروری ہے کہ حکومت الزامات کی سیاست میں الجھنے، مقدمے بازی میں وقت ضائع کرنے، گزشتہ حکومت کی مالی بدعنوانیوں کا سراغ لگانے کے بجائے، عوام الناس کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لئے اپنی توانائیاں صرف کرئے اور مشکلات میں گھرے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا سامان کرئے۔
جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو سیاست کرنا تمام سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ لیکن یہ سب عوام الناس کے مسائل کی قیمت پر ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔کیا ہی اچھا ہو کہ میڈیا پر اور سڑکوں پر سیاسی سرکس لگانے کے بجائے، تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کا رخ کریں۔ وہاں پر ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دیں۔ اگر اس سے بھی تسلی نہ ہو تو عدالتیں کھلی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف جو بھی کیسز ہیں ِ ، عوام میں ان کا رونا رونے کے بجائے اداروں کا رخ کریں ۔