سانحہ مسجد نبوی کے بارے میں منصوبہ سازوں کا اوور کانفیڈنس ان کے اپنے گلے پڑگیا ۔ایک عام مسلمان تو یہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہے کہ کوئی اس قبیح فعل کا ارتکاب کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے ؟ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ پچھلے چار سالوں سے ایک مخصوص سیاسی گروہ کو بھی ملک میں اشرافیہ والا وہی درجہ دے دیا گیا تھا کہ جن پر کسی قاعدے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ۔توہین مسجد نبوی سے پہلے شیخ رشید نے بڑے فخر سے پریس کانفرنس میں بتایا کہ دیکھنا حکومتی وفد کے ساتھ مکہ اور مدینہ میں کیا ہوتا ہے ۔اب تو وہ ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ جس میں چند روز قبل ادائیگی عمرہ کی آڑ میں شیخ رشید پی ٹی آئی سعودی عرب کے کارکنوں کے ساتھ بیٹھ کر ہنگامہ آرائی کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔اس مکروہ کام کے لیے برطانیہ سے جہانگیر چیکو اور انیل مسرت بھی چند لوگوں کو ساتھ لے کر آئے ۔اس طرح سے کڑیاں مل جاتی ہیں کہ پورا منصوبہ عمران خان کے علم میں تھا ۔توہین مسجد نبوی کے بعد آنے والے شدید ردعمل کے بعد جہانگیر چیکو اور انیل مسرت اسی شام جدہ سے فرار ہوگئے ۔ایک دوسری اطلاع کے مطابق سعودی حکام نے سی سی ٹی وی کے ذریعے شناخت کرنے کے بعد ہوٹل سے پکڑ لیا تھا بعد ازاں ان کی برطانوی شہریت اور پاسپورٹ دیکھ کر ملک بدر کردیا گیا ۔اس سانحے کے اہم کردار شیخ رشید کے بھتیجے راشد شفیق کو اسلام آباد واپسی پر گرفتار کرلیا ہے ۔اس نے مدینہ منورہ میں سارے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے بعد ایک ویڈیو اپ لوڈ کرکے ‘‘ کریڈٹ ‘‘ لینے کی کوشش بھی کی تھی ۔اس سانحہ پر ملک بھر میں ایف آئی آر درج کرائی جارہی ہیں ۔پی ٹی آئی کی قیادت نے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہونے پر فوری گرفتاریوں سے بچنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے ۔سانحہ مسجد نبوی پر مقدمات کا اندراج لازمی تھا ۔شکر ہے کہ انتظامیہ نے ماضی کی طرح اس بار پہلو تہی نہیں کی۔ کروڑوں مسلمان زخمی دلوں کے ساتھ یہ توقع کررہے ہیں کہ تمام مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ادھر سعودی عرب میں اس حوالے سے کارروائی کا سلسلہ جاری ہے ۔پہلے بتایا گیا تھا کہ صرف پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اب اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کئی اور پاکستانی بھی پکڑ لیے گئے ہیں ۔حکومت پاکستان نے سعودی حکومت سے درخواست کی ہے کہ کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے پیش رفت سے آگاہ رکھا جائے ۔نیز اس کیس میں ڈی پورٹ کیے جانے والوں کی فہرست بھی فراہم کی جائے تاکہ ان عناصر کے خلاف پاکستان واپسی پر بھی کارروائی کی جاسکے ۔اسی دوران انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض لبرل حلقے یہ مطالبہ کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات واپس لیے جائیں ۔یہ مطالبہ انتہائی افسوس ناک اور زمینی حقائق سے یکسر ناواقف ہونے کا ثبوت ہے ۔ کیا کسی کو اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ کائنات کے مقدس ترین مقامات کو اپنی سیاسی اور ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا کر ان کی حرمت پامال کرے۔ منصوبہ سازوں نے پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا ۔مسلمان تو کیا غیر مسلم ممالک بھی سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان میں کس قسم کی ‘‘ مخلوق ‘‘ پائی جاتی ہے ۔اس موقع پر ایک بار پھر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ توہین مذہب کے قوانین بے حد ضروری ہیں اصل چیز یہ ہے کہ ان کا اطلاق درست طریقے سے کیا جائے ۔اور کسی پر جھوٹا الزام لگانے والے کو نمونہ عبرت بنا دیا جائے ۔سانحہ مدینہ کے حوالے سے تو سارا مقدمہ ہی واضح ہے ۔تحقیقات کے ذریعے اس کی کڑیاں جوڑ کر ملوث افراد کو پکڑ کر سزائیں دلوانا ہے تاکہ آئندہ کوئی ایسا سوچنے کی بھی جسارت نہ کر سکے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا
کہ اس تمام معاملے میں مثبت خبریں ڈاکٹرائن بھی برابر کا قصور وار ہے ۔اس ڈاکٹرائن کے تحت طے کردیا گیا تھا کہ عمران خان کو عظیم روحانی و سیاسی شخصیت بنا کر پیش کرنا ہے جب کے باقی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرپٹ ، غدار ، اور دین دشمن قرار پا گئی تھیں ۔پاکستان میں پچھلے 74 سالوں سے مٹھی بھر رولنگ ایلیٹ پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ۔وہ چاہیے کسی انسان کو قتل کردے یا آئین روند ڈالے ، ملک توڑ دے یا قومی اثاثے بیچ کھائے۔ اس کے کسی بھی جرم پر آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی منع ہے۔ 2018 میں جب پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تو کئی سیاسی مخالفین کو خوش فہمی تھی کہ کم ازکم عمران خان تو وزیر اعظم نہیں بن سکتے ۔سیتا وائٹ کیس میں امریکی عدالت کا فیصلہ موجود تھا ۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت تاعمر نااہلی کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہ تھا ۔ٹیریان کیس مکمل طور پر ایک قانونی معاملہ تھا اور ہے ۔مگر سب نے دیکھا کہ ‘‘ وسیع تر قومی مفاد ‘‘ غالب آکر رہا ۔پیش بندی کے طور پر ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ایک مشکوک کردار کے ذریعے عدالت میں درخواست دلوائی گئی ۔جسے ان ریمارکس کے ساتھ خارج کردیا گیا کہ دوبارہ ایسی حرکت کی تو جرنامہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بنی گالہ کی اراضی کی خریداری کے لیے رقوم کی منتقلی کے بارے میں کاغذات نہیں ملے تو جمائمہ گولڈ سمتھ کی جانب سے سادہ کاغذوں پر بھجوانی جانے والی تفصیل پر عدالتی مہر لگا کر قانونی دستاویز کا درجہ عطا کردیا گیا ۔فارن فنڈنگ اور شوکت خانم ہسپتال کے چندے کے بارے میں گڑبڑ کی اطلاعات کے دوران ہی علیمہ خان کی بیرون ملک جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آئیں تو ‘‘ عظیم جج ‘‘ ثاقب نثار نے معمولی جرمانہ کرکے سب کچھ جائز قرار دے دیا ۔پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد کرپشن کے لاتعداد سیکنڈل سامنے آئے تو بعض عدالتوں نے سٹے آرڈر جاری کر دئیے ۔باقی سب فائلوں میں دبے رہ گئے ۔فرح خان گوگی محض ایک مثال ہے ۔اس خاتون کے بارے میں تسلسل سے اطلاعات سامنے آتی رہیں کہ افسروں کے تبادلوں سے لے کر زمینوں کے کاروبار تک ہر دھندے میں ملوث ہے ۔یہ سب سچ تھا اسی لیے جب عمران خان کی حکومت کے لیے خطرات پیدا ہونے شروع ہوئے تو فرح گوگی کو ایک نجی طیارے پر دبئی بھجوا دیا گیا ۔اب اسکی اربوں کی لوٹ مار کے معاملات سامنے آرہے ہیں ۔ظاہر ہے کہ فرح گوگی کی اپنی کوئی حیثیت نہ تھی ۔وہ جو کچھ بھی کرتی رہی اسکا براہ راست تعلق بشریٰ بی بی اور عمران خان کے ساتھ تھا ۔اس لیے اب اگر عمران خان خود میڈیا کے سامنے آکر گوگی کی صفائیاں پیش کررہے ہیں تو اس پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چائیے۔ ماضی میں اکثر اوقات یہی ہوتا آیا ہے کہ مقدمات بنتے بھی ہیں تو ان کا صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے -کئی سیاسی جماعتوں پر مشتمل موجودہ حکومتی ڈھانچہ اس حوالے سے بھی زخم خوردہ ہے ۔کاروباری معاملات کو کرپشن قرار دے کر رگڑا لگایا گیا تو کبھی کسی کی گاڑی میں خود ہیروئن رکھوا کر اسے سمگلر بنا دیا گیا۔ باپ سے ملاقات کے لیے جیل جانے والی بیٹی کو اس کے سامنے حراست میں لے لیا گیا۔ جیل سے ہسپتال آئی بہن کو آدھی رات کو جگا کر واپس قید خانے میں ڈال دیا گیا ۔اربوں روپے لگا کر سیاسی مخالفین کی کردارکشی کی مہم چلائی گئی ۔پورے پورے میڈیا ہائوسز اس کام کے لیے بک کر لئے گئے ۔یقینا ان میڈیا ہائوسز کو بھی قومی خزانے سے خوب نوازا
گیا۔ ایک کو تو پورا ڈی ایچ اے ہی عطا کردیا گیا۔ یہ بات نوٹ کی جارہی ہے کہ اب یہی مخصوص میڈیا ہائوسز اور وہی پرانے ٹائوٹ اینکر پرسن اور تجزیہ کار عمران حکومت کے جمہوری طریقے سے خاتمے کے باوجود ‘‘ ڈٹ ‘‘ کر پچھلی پوزیشن پر ہی کھڑے ہیں ۔ یقینا کوئی تو ہے جو ان کو لائن دے رہا ہے ۔یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میڈیا کے ایسے عناصر ہی ہیں جن کے سبب ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لانا مشکل ہو جاتا ہے ۔انہیں جو بھی استعمال کررہا ہے اس سے قطع نظر حکومت کا اپنا بھی کچھ فرض ہے ۔یہ دیکھا جائے کہ ان میڈیا عناصر کے ذرائع آمدن اور اثاثے کیا ہیں ۔ان میں اکثر ارب پتی بن چکے ۔حکومت کے ساتھ پریس کلبوں اور صحافی یونینز کو بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ عناصر میڈیا کی آڑ لے کر کن کے مقاصد کو پورا کررہے ہیں ۔یہ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر کبھی جمہوری حکمرانوں کی تضحیک کرتے تھے ، پھر براہ راست غیر جانبدار ججوں کو نشانہ بنانے لگے اب پاک فوج کی اعلی قیادت کے درپے ہیں ۔یہ آئین کو نہیں مانتے ، ان میں سے کئی ایک کے رابطے بیرون ملک بھی ہیں۔ ان کے گمراہ کن تبصرے فساد پھیلانے کی مربوط اور منظم سازش ہیں ۔وقت آگیا ہے قانون کے یکساں اطلاق کا دائرہ ایسے عناصر تک بھی بڑھایا جائے ۔آئین اور قانون شکنی کے مرتکب افراد سیاسی ہوں یا غیر سیاسی کوئی لحاظ کیے بغیر مقدمات درج کیے جائیں اور ملکی قوانین کے مطابق عدالتوں میں پوری سنجیدگی سے پیروی کی جائے ۔ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس کا مالک بغیر کسی جرم کے قید کاٹ سکتا ہے ، سب سے محترم جج کی ذات کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاسکتا ہے تو میڈیا کے نام پر آئین شکنی و قانون توڑنے والوں کی سرکوبی کیوں نہیں کی جاسکتی ۔جرائم کے مطابق مقدمات درج کرکے سزائیں دلوانے کے عمل کو آگے نہ بڑھایا گیا تو اس معاشرے سے جنگل کا قانون کبھی ختم نہیں ہوگا ۔
٭…٭…٭