عید آ ئی اور بخیریت گذ رگئی۔ بہر حا ل مبا رک، سلا مت کا سلسلہ ابھی چل رہا ہے۔ تو قارئین کرام کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک ۔ یہ مقدس تہوار ہماری قومی اور سماجی زندگی میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کس طرح خوشیاں بانٹی جاتی ہیں۔ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں، غم بانٹنے سے کم ہوتے ہیں۔ عید الفطر سماجی ہم آہنگی، رواداری اور تحمل کا درس بھی دیتی ہے۔ فی زمانہ قومی سطح پر ان اقدار کی تجدید کی اشد ضرورت ہے کہ سیاست، معیشت اور معاشرت میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور افراتفری سماجی سکون کے لیے مشکل صورت حال پیدا کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پائیدار ترقی دنیا میں خوشی کے احساس کے جائزے پر مبنی جو سالانہ رپورٹ شائع کرتا ہے، جسے کسی ملک میں خوشی کے احساس کے ایک پیمانے کے طور پر لیا جاتا ہے وہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ وطن عزیز میں گزشتہ پانچ، سات برس میں خوشی کے احساس میں نمایاں کمی آئی ہے۔ مثال کے طور پر 2013ء کی ورلڈ ہیپی نس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا رینک 81 تھا جبکہ 2021ء کی رپورٹ میں پاکستان اس لسٹ میں 105 ویں نمبر پر پہنچ چکا تھا۔ رواں سال کی ’’ہیپی نس رپورٹ‘‘ کے مطابق پاکستان کی رینکنگ میں مزید کمی آئی اور اس سال یہ 121 ہوچکی ہے۔ یہ اشاریہ ملک میں فی کس ڈی جی پی، سوشل سپورٹ اور متوقع صحت مند عمر میں کمی اور سماجی بے یقینی اور عدم تحفظ کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس تبدیلی کے اسباب بالکل واضح ہیں۔ ظاہر ہے کہ لوگ اپنے معاشی اور معاشرتی حالات سے مطمئن نہیں اور ان کے خدشات میں ہونے والا اضافہ پاکستان کی رینکنگ میں کمی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ ان حالات کو بہتری کی جانب موڑنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔ بے شک معاشی مسائل کا حل ایسا کا م ہے جس کے لیے حکومت ہی کلیدی طور پر کوئی کردار ادا کرسکتی ہے مگر سماجی اطمینان کے لیے صرف حکومتی کوششیں کافی نہیں، اس کے لیے سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ملک میں ایسا ماحول بنایا جاسکے جس میں سوسائٹی میں ہم آہنگی کی اقدار کو پروان چڑھایا جاسکے۔ سیاسی اختلافات کس سوسائٹی میں نہیں پائے جاتے۔ مگر تہذیب اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اختلافات کا اظہار شائستہ پیرائے میں ہو۔ اس کے لیے مکالمے کی روایت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سوشل میڈیا کے ذریعے سماج کے اندر سیاسی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی خشونت میں کمی آئے۔ سیاسی جماعتوں کے آپسی کے بیر کو ایسے ورکنگ ریلیشن شپ میں تبدیل کرنا ہوگا جہاں حزبِ اختلاف حکومتی گاڑی کے ایک پہیے کے طور پر کام کرسکے۔ یہی جمہوری سسٹم کو سیدھے راستے پر قائم رکھنے کا طریقہ ہے اور اسی سے ملک و قوم مسائل کی دلدل سے نکل سکتے ہیں۔ معیشت بلاشبہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر اس سے نکلنے کے لیے بھی بہترین طریقہ یہی ہے کہ قومی ہم آہنگی کے ساتھ فیصلے کیے جائیں جن پر طویل مدت کے لیے کام جاری رکھا جاسکے۔ ہمارے ہاں مسائل کا ایک بنیادی سبب پالیسیوں کی ناپائیداری ہے۔ جو حکومت آتی ہے وہ اپنی مرضی سے سارا کچھ ترتیب دینے کی کوشش کرتی ہے۔ بے شک حکومت کا اختیار ہے کہ وہ اپنی پالیسی کے
مطابق عمل کرے مگر جب ایک حکومت اپنی مدت مکمل کرنے سے پہلے ختم ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ دوسری پارٹی آتی ہے تو یہ صورت حال ملکی پالیسیوں کے لیے خصوصی امتحان بن جاتی ہے۔ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے کہ جو پالیسی وضع کی جائے اس میں پارلیمانی جماعتوں کی رائے بھی شامل ہو اور سبھی کو اس بارے اعتماد میں لیا جائے اور طویل مدت تک عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ یہ دیکھ لیا ہے کہ مختصر یا قلیل مدتی منصوبے معیشت کے شعبے میں صرف کاسمیٹک بہتری لاسکتے ہیں جبکہ پاکستان کو پائیدار ترقی کی ضرورت ہے جس کے لیے طویل مدت تک دلجمعی کے ساتھ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس درست قدم کو کہیں تو اُٹھانا ہوگا، کیوں نہ اس نیک کام کا آغاز اسی دور میں ہو جائے۔ موجودہ دور میں یہ بھی آسانی ہے کہ حکومت کثیر جماعت اور اپوزیشن یک جماعتی ہے۔ اگرچہ حکومت اور اپوزیشن کی جماعت کے مابین ایک وسیع خلیج حائل ہوچکی ہے اور اس کے پھیلائو میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر یہ قومی سیاست اور سماج کے لیے کسی بدقسمتی سے کم نہیں۔ کیونکہ یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ سیاسی اختلافات دن بہ دن سیاسی سے زیادہ ذاتی عناد میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک کی سیاست میں قدر آور قائدین کی کمی
نہیں مگر یہ مقامِ افسوس ہے کہ ایسے وقت میں جب انہیں بروئے کار آنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کوئی بھی اپنا کردار ادا کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ جلتی پر تیل گرانے کا محاورہ اگر ان حالات پر منطبق کیا جائے تو یہ بھی غلط نہ ہوگا۔ مگر اس صورت حال کے مضمرات کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ واضح ہے کہ وطن عزیز کی آبادی نوجوان اکثریت پر مشتمل ہے اور سوشل میڈیا آج کے ہر دوسرے نوجوان کا ہتھیار ہے۔ اگر ایک پارٹی اسے دوسرے کے خلاف برتے گی تو اس کا ردّ عمل بھی ہوگا۔ بالآخر یہ ملکی مفاد، استحکام اور ہم آہنگی پر اثر انداز ہوگا اور یہ سماج جو ثقافتی اور لسانی رچائو کا خوبصورت گہوارا ہے اس کی اقدار متاثر ہوںگی اور سیاسی لڑائی جھگڑے، جو آج ٹویٹر وغیرہ تک ہیں، ہم جولیوں تک آئیں گے۔ موجودہ حالات میں ان خدشات کی چاپ محسوس کی جاسکتی ہے؛ چنانچہ ہم آہنگی اور سماجی ربط ضبط کے لیے متحرک ہونے کا یہ بہترین موقع ہے۔
عید الفطر کے ذکر کے بعد اب ذرذکر وطنِ عز یز میں جا ری مہنگا ئی کا ہو جا ئے۔تو کہنا یہ ہے کہ شماریات بیورو کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 13.37 فیصد رہی جو کہ جنوری 2020ء کے بعد ملک میں مہنگائی کی بلند ترین سطح تھی۔ اس دوران سب سے زیادہ مہنگائی (29.57 فیصد) اشیائے خوراک میں دیکھنے میں آئی۔ ماہانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں شہری آبادی میں مہنگائی میں 15.98 فیصد اور دیہی علاقوں میں 18.23 فیصد اضافہ ہوا۔ دیہی علاقوں، جو ہمارے جیسے زرعی ممالک میں خوراک کے پیداواری مراکز سمجھے جاتے ہیں، میں شہری علاقوں کی نسبت زیادہ مہنگائی کا مطلب یہ ہے کہ وہ علاقے خورا ک کے معاملے میں خود کفالت کی سطح سے نیچے آچکے ہیں۔ یہ خوراک کے پیداواری شعبے کی جانب عدم توجہ کا بدیہی نتیجہ ہے جو خورا ک کی درآمدات میں مسلسل اضافے کی صورت میں بھی سامنے آرہا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران گزشتہ سال کے اسی دورانیے کی نسبت خوراک کی درآمدات میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس اس خوراک کی درآمد پر چھ ارب ڈالر کے قریب رقم خرچ کی گئی جو اس سال سات ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی۔ روپے کی قدر میں گراوٹ اور اس پر درآمدات میں اضافہ، مہنگائی میں بے قابو اضافے کے لیے یہی کافی ہے۔ اگر حکومت خوراک کی مہنگائی سے نمٹنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو خوراک کے شعبے میں خود کفالت بنیادی شرط ہے۔