غزہ :فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔ حماس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حماس نے امریکی ایلچی کے ساتھ ان مذاکرات میں حصہ لیا، جن میں امریکی شہریت رکھنے والے اسرائیلی قیدیوں کے معاملے پر گفتگو کی گئی۔
حماس عہدیدار کے مطابق، حماس اور امریکی حکام کے درمیان مختلف مواصلاتی چینلز کے ذریعے متعدد بار بات چیت ہو چکی ہے، اور حالیہ دنوں میں دوحہ میں دو براہ راست ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ اس سے قبل امریکی نیوز ویب سائٹ نے انکشاف کیا تھا کہ امریکا نے غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس سے خفیہ طور پر براہ راست رابطہ کیا ہے۔
یہ مذاکرات امریکی صدر کے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر کی قیادت میں دوحہ میں ہوئے تھے۔ وائٹ ہاؤس نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ایک امریکی ایلچی نے امریکی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس سے بات چیت کی۔ مذاکرات میں امریکی شہریوں کے علاوہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور طویل المدتی جنگ بندی پر بھی گفتگو ہوئی، تاہم کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا۔ امریکی میڈیا نے یہ بھی بتایا کہ یہ رابطہ اس لیے غیر معمولی ہے کیونکہ امریکا نے اس سے پہلے کبھی حماس سے براہ راست مذاکرات نہیں کیے۔
امریکا نے 1997 میں حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ دوسری جانب، اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ حماس کے قبضے میں اب بھی 59 یرغمالی موجود ہیں، جن میں 5 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق 35 یرغمالیوں کی ہلاکت ہو چکی ہے، جبکہ 22 یرغمالیوں کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ گزشتہ ہفتے ختم ہو چکا ہے، اور فریقین کے درمیان جنگ بندی میں توسیع پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں داخل ہونے والی تمام انسانی امداد روک دی ہے، جس سے قحط کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔