اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی اسد طور کی ایف آئی اے طلبی کے نوٹس اور ہراساں کرنے کی درخواست پر فریقین سے حتمی دلائل طلب کرلیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے صحافی اسد طور کی ایف آئی اے طلبی کے نوٹس اور ہراساں کرنے کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار اسد طور کی جانب سے وکیل ایمان زینب مزاری عدالت میں پیش ہوئیں۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو رپورٹ جمع کرنے کا کہا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ نوٹس کسی اور چیز پر ہے جبکہ ایف آئی آر کچھ اور ہے۔ درخواست گزار کا ابھی کیا سٹیٹس ہے؟۔ جس پر ایف آئی اے کے وکیل نے موقف اپنایا درخواست گزار اس وقت جسمانی ریمانڈ پر ہے۔
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا مقدمہ پیکا ایکٹ کے تحت درج کردیا گیا مگر نوٹس کچھ اور تھا۔ ایف آئی اے اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے درخواست میں جو لکھا ہے میں اس سے بالکل برعکس ریلیف نہیں دے سکتے۔ ایمان مزاری نے کہا میں نے درخواست میں سپریم کورٹ کے صغریٰ بی بی کیس کا حوالہ دیا ہے۔ ایف آئی آر میں بھی ایسا کچھ نہیں لکھا گیا کہ گرفتار کیوں کیا گیا۔ ایف آئی اے کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ اسد طور نے اداروں اور عدلیہ مخالف گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا۔ جن چیزوں کا مقدمہ میں بتایا گیا ان دفعات کا پیکا ایکٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کیا جو نوٹسز دیئے تھے اس میں اس طرح کا کچھ لکھا تھا؟ ایمان مزاری نے جواب دیا نوٹس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز مخالف پراپیگنڈا کیا۔ چھبیس فروری کو مقدمہ درج کرلیا گیا اور اسی دن گرفتاری بھی ڈالی گئی۔ ٹیکنیکل اسسٹنٹ ایف آئی اے نے اپنی شکایت میں لکھا کہ ایکس پر انتہائی بے حودہ چیزیں دیکھیں۔ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں پھر یوٹیوب کا ذکر کیا ہے، ایکس کی کسی پوسٹ کا ذکر نہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے وکیل کو مخاطب کرکے ریمارکس دیئے ایسا نہیں ہوتا کہ ایف آئی آر درج ہو اور گرفتاری ہو جائے۔ انوسٹیگیشن کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ میں اگر آپکی بات مان لوں تو آپ درخواست گزار کیخلاف نوٹس پر کارروائی کریں گے یا مقدمے پر؟ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایف آئی اے نوٹسز پر فیصلے موجود ہیں۔
ایف آئی اے کے وکیل نے کہا درخواست گزار کیخلاف جب انوسٹیگیشن کی گئی تب یہ باتیں سامنے آئیں جو رپورٹ میں ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ مان لیا کہ درخواست گزار نے غلط کیا ہوگا مگر کیا ابتدائی رپورٹ پر گرفتاری ہوسکتی ہے؟ انکوائری کیلئے اگر بلایا اور گرفتار کرلیا کیا یہ قانون کے مطابق ہوا؟
عدالت نے ایمان مزاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست نوٹس معطل کرنے پر تھی مگر اب بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عدالت نے درخواست گزار وکیل اور ایف آئی اے سے حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ دونوں فریقین نے عدالت کو مطمئن کرنا ہے باقی میں فیصلہ دونگا۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔