اس وقت ملک کا سب سے بڑامسئلہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے لیکن مسلم لیگ ن کی متحدہ حکومت اور دونوں صوبوں میں نگران حکومتوں کی حتی المقدور کوشش ہے کسی طور بھی ان انتخابات کو ٹالا جاے اور الیکشن کمیشن بھی اس سلسلے میں قطعی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ عمران خان تو اس بات پر بھی آمادہ ہیں کہ دو صوبوں کی بجاے ملک بھر میں جنرل الیکشن کروا دئیے جائیں لیکن عوامی مینڈیٹ سے بھاگنے والا حکومتی اتحاد اس کے لیے بھی تیار نہیں۔
سپریم کورٹ نے تو پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات کا حکم دے کر ملک کو آئینی اور سیاسی بحرانی کیفیت سے نکال تو دیا لیکن اب مسئلہ اس پرمکمل عمل درآمد کا ہے کیونکہ سپریم کورٹ پرحملے کی ملزم مسلم لیگ ن کی متحدہ حکومت الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی مدد سے انتخابات نہ کرانے کی حیلے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ صدر مملکت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے لیے 30 اپریل کی تاریخ بھی دے دی جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق خیبر پختون خواہ میں انتخابات کے انعقاد کا قرعہ گورنر کے نام نکلا لیکن وہ بھی تاریخ دینے کی بجاے آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔اور تو اور الیکشن کمیشن بھی انتخابات کروانے کے حوالے سے کوئی قدم اٹھانے کی بجائے اب تک یہ سوچ رہا ہے کہ کاش یہ سب جھوٹ ہی ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت اور پنجاب و خیبر پختون خوا کی نگران حکومتیں آج بھی وفاقی حکومت کی ہلا شیری سے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات کے انعقاد کے رستے میں روڑے اٹکانے میں مصروف ہے۔ نگران حکومتوں کا کام انتخابات کرانے تک محدود ہے لیکن وہ عمران خان دشمنی میں وفاقی حکومت کی بی ٹیم بنی بیٹھی ہیں۔ خاص طور پر محسن نقوی کی پنجاب کی نگران حکومت بھی آصف زرداری کے اشارے پر تمام حدود پھلانگنے کو تیار ہیں۔ پنجاب
کے نگران وزیراعلیٰ اور کابینہ عمران خان کے خلاف تعصب بھی ظاہر کر رہا ہے کہ کسی اور کھیل کی ہی تیاری ہے۔ جبکہ دوسری طرف انتخابات سے خوفزدہ حکومتی اتحاد کے علی بابا اور چالیس چور وفاقی حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ایمرجنسی کے نفاذ اور بعد ازاں قومی اسمبلی کی مدت بڑھانے کا کوئی رستہ نکالیں تاکہ کسی طرح دو صوبوں میں الیکشن ملتوی کیے جائیں کیونکہ انتخابات مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت کی سیاسی موت ثابت ہوں گے۔ عمران خان کی ممکنہ گرفتاری اور اس کے بعد پیدا ہونے والی امن و امان کی صورتحال بھی انتخابات رکوانے کی ایک کڑی ہے۔ چلیں 15 جماعتوں کے
حکومتی اتحاد کا تو بنتا ہے کہ وہ واحد اپوزیشن پارٹی یعنی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف حکمت عملی ترتیب دیں لیکن نگران حکومتوں کا اس سلسلے میں وفاقی حکومت کا ساتھ دینا سمجھ نہیں آتا۔ ماضی میں سیاسی اتحاد اپوزیشن میں حکومت وقت کے خلاف بنتے تھے لیکن یہ واحد حکومت ہے جو اپوزیشن کے خلاف 15 رکنی اتحاد بناے بیٹھی ہے۔ اگر دیکھا جاؤ تو نگران حکومتیں اس وقت غیرجاندارانہ کردار ادا کرنے کی بجاے تحریک انصاف کے خلاف مکمل تعصبانہ رویہ اپناے بیٹھی ہیں۔ اس کی واضع مثال یہ ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے اسلام آباد جاتے ہی ان کی زمان پارک رہائش گاہ سے سیکورٹی کے تمام لوازمات ہٹا دئیے گئے۔ اس کے باوجود کہ وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ اس وقت میں بھی حیران ہوا اور وجہ جاننے کیلئے ایک سینئر پولیس آفیسر سے رابطہ کیا توانہوں نے بتایاکہ ہمیں جو بتایا گیا ہے کہ خان صاحب اب لاہور واپس نہیں آ سکیں گے۔ میں نے پریشان ہو کر وجہ پوچھی تو ہڑبڑاکر کر وضاحت کی کہ ہماری انڈر سٹینڈنگ کے مطابق ممکنہ طور پر وہ حکومتی ”کسٹڈی“ میں ہوں گے۔ میں نے کہا کیا وہ گرفتار ہوں گے؟ اس پر ان کا جواب تھا کہ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے۔ یہی سوال میں نے ایک کئیر ٹیکر وزیر سے کی تو ان کا بھی ملتا جلتا جواب تھا کہ آج کے بعد عمران خان وفاقی حکومت کے حوالے ہوں گے اور ہماری ذمہ داری ختم۔ میرا سوال تھاکیا عمران خان کی ضمانت منسوخی کے بعد اسلام آباد کی پولیس انہیں گرفتار کر لے گی تو ان کا جواب تھا کہ قانونی طور پر گرفتاری کے حوالے سے یہی پوزیشن ہے۔ پھر ایک سینئر بیوروکریٹ سے سیکورٹی ہٹانے بارے سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ سیکورٹی تکنیکی بنیادوں پر ہٹائی گئی ہے کیونکہ عمران خان صاحب اب شایدلاہورواپس نہ آئیں اور وفاقی حکومت کی عملداری میں ہوں گے۔ میں نے پھر سوال کیا کہ آپ انہیں گرفتار کر رہے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ یہ فیصلہ عدالت اور اسلام آباد پولیس کا ہو گا۔ جب میں نے اسلام آباد پولیس سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کی طرف سے آج ہر حال میں عمران خان کو گرفتار کرنے کے احکامات ہیں۔ میرا سوال تھا کہ اگر ان کی ضمانت ہو گئی تو ان کا جواب تھا کہ آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا۔ میرے ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کے خلاف تین مزید مقدمات درج ہیں اور ان کی ضمانت ہو بھی جائے تب بھی ان کی نئے مقدمات میں گرفتاری یقینی ہے۔ خیر سے اس دن عمران خان عدالتوں میں پیش ہوئے اور انہیں ریلیف مل گیا۔ لیکن عمران خان کی لاہور آمد کے بعد اتوار کی صبح اچانک اسلام آباد پولیس میڈیا پر آکر عمران خان کی گرفتاری کی بریکنگ نیوز دے کر ہیجان برپا کر دیتی ہے اور اس پلان میں نگران حکومت بھی پیش پیش ہے۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان نے 7 مارچ کو اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہونا ہے اور اسلام آباد پولیس عمران خان کو پیشی پر بھی گرفتارکر سکتی تھی لیکن اس وقت لاہور میں یہ ڈرامہ کھڑا کرنے کا مقصد کیا تصادم کی فضا پیدا کرنا ہے ہم ماڈل ٹاؤن کا سانحہ دیکھ چکے ہیں جس میں کئی کارکن پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس وقعہ کے آرکیٹکٹ بھی موجودہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ تھے اور آج بھی وہی ڈوریں ہلا رہے ہیں۔ اب تک عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جا سکا لیکن تصادم کی فضا بنتی نظر آرہی ہے۔ وقت ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیں۔اللہ خیر کرے۔۔
قارئین کالم بارے اپنی رائے اس وٹس ایپ نمبر 03004741474 پر دے سکتے ہیں۔