گزشتہ دنوں انٹرنیشنل ٹرانسپرنسی پاکستان کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ کوئی سرکاری محکمہ کرپشن سے پاک نہیں۔ ہر جگہ کرپشن کے مختلف ریٹ ہیں اور ہرگزرتے کے دن کیساتھ کرپشن کی لعنت میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے وہ ہم سب کیلئے بحیثیت قوم لمحہ فکریہ ہے۔ یہ زہر جب معاشرے کے بالادست طبقے میں سرایت کر جاتا ہے اور حکومت کے ایوانوں تک پہنچتا ہے تو قومی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں نظر آرہا ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے باعث ہر شعبہ دیمک زدہ محسوس ہو رہا ہے اور ہم اپنی اعلیٰ اخلاقی و سماجی قدروں سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔کرپشن جب معاشرے میں جڑ پکڑتی ہے تو رشوت کے چلن یا قومی خزانے میں خورد برد تک محدود نہیں رہتی بلکہ میرٹ کو نظر انداز کرکے نااہل افراد کی تقرریوں ٗ سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال ٗ سے ملک و قوم کو نقصان پہنچاتی ہے ۔کرپشن اور اقربا ء پروری معاشرے کو ایسا پلٹ کر رکھ دیتی ہے جسکے نتیجے میں پاکستان جیسا قدرتی وسائل اورا فرادی قوت سے مالا مال ملک آج غربت ٗ بیروزگاری اور مہنگائی کی دلدل میں پھنسا نظر آرہا ہے جبکہ دریائی پانی ٗ تیل و گیس کے زیر زمین ذخائر کوئلے ٗ تانبے اور سونے کی کانوں ٗ سمندر جیسی بے بہا نعمت ٗ برف پوش پہاڑوں اور زرخیز زمین سے لیکر سورج کی بے پناہ توانائی کے حامل اس ملک کو دنیا کے انتہائی خوشحال اور ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہونا چاہئے تھا۔ ان سب نعمتوں کے علاوہ پاکستان کو قدرت نے ایسی محنتی ٗصابر و شاکر افرادی قوت دی ہے جوہر قسم کے حکمرانوں سے تعاون کیلئے تیار رہتی ہے مگر بدقسمتی سے بدعنوانیوں پر مبنی سفاکانہ نظام کے باعث ہم ہر قسم کی ترقی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صاحبان اقتدار خود بھی گلے گلے تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ہر اس شخص کی سرپرستی کرتے ہیں جو کرپشن سے ان کا حصہ ادا کرنے کیلئے تیار ہو۔ اب صرف دانشوروں ٗ اساتذہ ٗ طلباء ٗ علماء ٗ صاحبان فکر اور میڈیا سے امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کا مؤثر اور بھرپور ردعمل ہی اس صورتحال کو تبدیل کر سکتا ہے۔
قوم کو قوی امید تھی کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں کم از کم کرکٹ کا قبلہ درست ہو جائے گا ۔پی سی بی میں ہونے والی کرپشن کی کہانیاں ختم ہو جائیں گی لیکں جہاں باقی شعبوں میں قوم کا حال خراب ہوا وہاں کرکٹ کا شعبہ بھی محفوظ نہیں رہااس میں اقربا پروری کی کہانیاں تو ہمیشہ سے چل رہی تھیں اب بد عنوانی بھی منظر عام پر آنے لگی ہے لیکن ابھی بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ میں تازہ ترین کہانیاں جو سننے میں آ رہی ہیں وہ اس کے سی او او سلمان نصیر کی ہیں ۔جو چند سال پہلے قانونی امور کی دیکھ بھال کے لئے بھرتی ہوئے لیکن چند ہی سالوں میں کچھ خفیہ ہاتھوں نے انھیں کرکٹ بورڈ کا چیف آپریٹنگ افسر بنا دیا اور وہ خفیہ ہاتھ ایک وفاقی وزیر اور ان کے بیٹے کے ہیں جو عمران خان کی ناک کے نیچے یہ کھیل رہے ہیں مبینہ طور پر شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے کا نام لیا جارہا ہے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کمرشل ہیڈ کی جو سیٹ خالی تھی اس کا چارج بھی موصوف حاصل کر چکے ہیں اور کسی کو خالی سیٹ پر بھرتی نہیں کر رہے اور تمام اختیارات کے مزے خود لے رہے ہیں ہر روز کرپشن اور اقربا پروری کی ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے ۔سلمان نصیر بارے حال ہی میں پی سی بی کی ہونے والی آڈٹ رپورٹ میں بھی سوال اٹھایا گیا ہے ۔آڈٹ رپورٹ میں بھی انکی راتوں رات ترقی پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا ہے جس کے مطابق فروری 2019 میں سینئر جنرل منیجر لیگل سے چیف آپریٹنگ آفیسر بننے پر انکی تنخواہ میں یکمشت 8لاکھ 25 ہزار روپے کا اضافہ کر دیا گیا ۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق انہیں ملازمت پر رکھنے سے قبل اخبار میں کوئی اشتہار دیا گیا نہ ہی کم ازکم تعلیمی قابلیت، تجربے اور عمر کا خیال رکھا گیا۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی رپورٹ میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا ہے کہ 15جولائی 2012 میں مینجر لیگل بھرتی ہونے والے سلمان نصیر کو 12فروری 2019 کو چیف آپریٹنگ آفیسر کیوں بنا دیا گیا، اور انکی تنخواہ میں یکمشت 8لاکھ 25ہزار روپے کا اضافہ کیسے ممکن ہوا ۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق اپنے دور ملازمت میں سلمان 30 نصیر جولائی 2021 تک 3روڑ 64لاکھ 65ہزارروپے وصول کر چکے تھے جو ابھی تک اس سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں سلمان نصیرفی الحال ون مین شو کے طور پر کام کررہے ہیں۔ ۔ وہ اکیلے ہی بورڈ کا مکمل کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو چکے ہیں کیسے کامیاب ہوئے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ ہیڈ آف کمرشل کی سیٹ خالی ہونے اور کسی کی خدمات حاصل کرنے کے لیے کوئی جرأت مندانہ کوشش نہ کرنے کے بعد اب سلمان نصیر تمام تجارتی سودے خود ہی مؤثر طریقے سے کررہے ہیں۔ایک ایسی پوزیشن جس کی عوامی طور پر کبھی تشہیر نہیں کی گئی تھی وہ سلمان نصیر حاصل کر چکے ہیں مثال کے طور پر، ڈائریکٹر کی سطح کے عہدے کے لیے 15 سال کا متعلقہ تجربہ اور ماسٹرز ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ سی او او کی سیٹ صرف 7 سال اور ایک انڈرگریجویٹ بیچلر ڈگری۔سلمان نصیر کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ وہ بورڈ پر قبضہ کر چکے ہیں تو بے جا نہ ہو گا ۔اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ وہ خود ہی منصف اور خود ہی قاضی بن چکے ہیں کیونکہ وہ شکایات کے بورڈ کی بھی خدمات انجام دے رہا ہے، جس میں اس کے ویٹو کے اختیارات اسے مؤثر طریقے سے اپنے خلاف کسی بھی رپورٹنگ سے بری کر دیتے ہیں۔
کیا یہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا؟مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی حکومت جوبر سر اقتدار آتی ہے، ملک میں وہ کرپشن ختم کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی بلکہ کرپشن ختم کرنے کا دعوی کرنے والے خود اس میں دھنستے جاتے ہیں ،جو ملک میں بحرانوں کے اضافے اور دیگر مسائل کی بنیادی جڑ ہے۔ ،کرپشن محض بیانات دینے ،دعوے کرنے اور ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل سے رابطے ختم کرنے سے ختم نہیں ہو گی بلکہ جب تک سلمان نصیر جیسے افراد کو اقرباء پروری سے نوازنے کا سلسلہ بند نہیں ہو گا ختم نہیں ہو سکتی۔