اسلام آباد میں بلوچ طالب علموں کے مظاہرے کے بعد اسد طور، ایمان مزاری اور بہت سے دوسرے لوگوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ یہ اسلام آباد جو ملک کا دارالحکومت ہے اس کا احوال ہے، بلوچستان جو اسلام آباد سے کئی سو کلومیٹر دور ہے وہاں کے زمینی حقائق کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ریاست کے ادارے عوام کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ علم بغاوت بلند کریں۔ کوئی ہوش کے ناخن لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی قائد اعظم یونیورسٹی میں طالب علم اپنے خلاف ہونے والے ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس مسئلہ پر سٹینڈ لیا تو اس مقدمہ میں نامزد افراد کی گرفتاری رک گئی ورنہ انہیں پابند سلاسل کر دیا جاتا اور وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے خوار ہو جاتے۔ ہماری عدالتیں اگر اسی طرح انصاف فراہم کرنا شروع ہو جائیں تو انتظامیہ کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کی جرأت نہیں ہو گی۔ مسٹر جسٹس اطہر من اللہ کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کو بلوچ طلبا کے خلاف درج مقدمے میں گرفتاریوں سے روک دیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی طور پر بھی غیر قانونی اقدامات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو سات مارچ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم بھی جاری کر دیا۔ مظاہرے کو روکنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا تھا جس کی وجہ سے کئی طالب علم زخمی بھی ہوئے تھے مگر مقدمہ ان کے خلاف بنا دیا گیا۔ مقدمہ کے اندراج کے بعد اس کی ایف آئی آر کو سیل کر دیا گیا تاہم عدالت کے حکم پر اس ایف آئی آر کی کاپی ملزمان کو فراہم کر دی گئی۔ ان طالب علموں کا مطالبہ محض اتنا تھا کہ لاپتہ ہونے والے طالب علم عبدالحفیظ بلوچ کو بازیاب کرایا جائے۔ یہ مظاہرہ جبری گم شدگی کے خلاف تھا۔ عبد الحفیظ بلوچ پہلا مقدمہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے کئی خاندان اپنے بچوں کی بازیابی کے لیے آئے روز مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے بچوں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان بچوں کو بازیاب کرانا کسں کی ذمہ داری ہے؟ مقامی عدالتیں بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرح جبری گم شدگی کے مقدمہ کو اسی طرح سنیں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکتا تھا۔ پولیس کا موقف یہ ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کی بابت مظاہرین کو بتایا گیا اس کے باوجود انہوں نے مظاہرہ کیا اگر ایسا تھا تو مقدمہ دفعہ 144 کا ہونا چاہیے تھا نہ کہ بغاوت کا۔ ایک نعرے کو بنیاد بنا کر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ شاہ قمر بلوچ ، بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے صدر ہیں ان کے حوالے سے اور وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے مظاہرین کو اشتعال دلایا۔ دوران سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے قرار دیا کہ جو لوگ بلوچ طلبا کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج ہونے چاہئیں۔
عبدالحفیظ بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم فل فائنل ائیر کے طالب علم ہیں اور اپنے آبائی قصبے خضدار میں بچوں کو شام کو پڑھاتے ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل جو سامنے آئی ہے کے مطابق آٹھ فروری کی شام وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھانے اکیڈمی میں گئے کہ نامعلوم افراد آئے اور انہوں نے عبدالحفیظ بلوچ کو زبردستی اغوا کر لیا۔ اکیڈمی آنے والے تین نقاب پوش افراد نے بچوں کے سامنے ان کے استاد کو اغوا کر لیا۔ ان کا مقدمہ خضدار مقامی سٹیشن میں درج کر لیا گیا۔ والدین کے مطابق ان کا بیٹا کسی منفی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتا تھا بلکہ وہ سارا وقت پڑھائی کرتا یا بچوں کو پڑھاتا تھا۔ بلوچستان سے اس طرح جبری طور پر اغوا ہونے والے افراد کی ایک لمبی فہرست ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی بازیابی کے لیے کوشاں ہیں۔
بلوچ طلبا کے اغوا اور جبری گم شدگیوں کے خلاف کئی دنوں سے نیشنل پریس کلب کے باہر طلبا نے کیمپ لگا رکھا تھا۔ کسی نے ان کی بات سننا گوارہ نہیں کیا۔ کوئی سرکاری عہدیدار ان کی داد رسی کے لیے نہیں آیا۔کسی نے ان کے سر پر دست شفقت نہیں رکھا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کچھ اساتذہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ضرور ان کے پاس آئیں اور ان سے اظہار یک جہتی کیا۔ مظاہرے میں شریک بچے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے والدین اس خوف کی وجہ سے ہمیں گھر نہیں بلاتے کہ یہاں سے انہیں اغوا نہ کر لیا جائے۔ معاملہ محض جبری گمشدگیوں یا لاپتہ کیے جانے کا نہیں ہے کئی طالب علموں کو اغوا کیا گیا اور چند دن بعد ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد ہوئیں۔ اس خوف کی فضا میں بچے کس طرح یکسوئی سے تعلیم پر توجہ دے سکتے ہیں۔
یہ معاملہ محض قائد اعظم یونیورسٹی تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک بھر کی جامعات میں فاٹا، کے پی کے، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے طالب علموں کو انتظامیہ کی جانب سے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ کبھی ہائیر ایجوکیشن کے نام پر پرفارما بھرایا جاتا کبھی کوئی اور وجہ بتائی جاتی ہے۔ ایک یونیورسٹی میں اہلکاروں نے ان طالب علموں کے موبائل فون چیک کیے اور مختلف سوشل میڈیا ایپس اور واٹس اپ پیغامات کو دیکھا گیا۔ جو سوالات پوچھے گئے ان سے طالب علم مزید خوف زدہ ہوئے مثال کے طور پر آپ کی کتنی بہنیں ہیں، کیا کرتی ہیں آپ کی ماں کا نام کیا ہے آپ کے پاسپورٹ کا نمبر کیا ہے اکاؤنٹ نمبر کیا ہے۔ یہ سوال بھی پوچھے گئے کہ آپ نے کس قسم کے اسلحہ کو چلانے کی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کس شدت پسند تنظیم کو جوائن کرنے کا ارادہ ہے؟ یونیورسٹی آف گجرات کے تقریباً ایک سو دس طالب علموں سے اس قسم کے سوالات کیے گئے جن میں بہت کم طالبعلم پنجاب سے تھے۔ معاملہ صرف طالب علموں تک محدود نہیں ہے بلکہ ان طالب علموں کے والدین سے بھی تفتیش ہوئی ہے۔ اگر یہ انٹیلی جنس کا نظام ہے تو پھر اس نظام کی مضبوطی کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی، ہائیر ایجوکیشن کمیشن یا کوئی دوسرا ادارہ طالب علموں کے حوالے سے کوئی معلومات اکٹھی کر رہا ہے تو پھر کسی خاص کمیونٹی، کسی خاص صوبے کے طالب علموں تک دائرہ کار محدود کرنے سے شکوک وشبہات یقین میں بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جا کر تعلیم حاصل کرنے سے قومی ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے لیکن ان یونیورسٹیوں میں بھی دوسرے صوبے سے آنے والے طالب علموں کو الگ تھلگ ہی رکھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ایک دوسرے کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ مقامی طالب علموں کو دوسرے صوبے سے آنے والے طالب علموں کا زیادہ خیال کرنا چاہیے نہ کہ انہیں ان کے حلقے تک محدود کر دیں۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ بچے ہمارے سفیر بنیں اور امن، محبت، بھائی چارے کا پیغام لے کر واپس جائیں اور انہیں یہ اعتماد ہو کہ ان کے بھائی لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں موجود ہیں اور کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ نفرت کی نہیں محبت کی نرسریاں بنائیں تو اس چمن سے دنیا کو خوشبو اور میٹھا پھل ملے گا۔