اگر خون کے چھینٹے دیکھیں…

اگر خون کے چھینٹے دیکھیں…

افغانستان سے روس کے انخلا (1989ء) کے بعد غلغلہ تھا سرد جنگ کے خاتمے، کمیونزم کے خاتمے، سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کی فتح کا۔ گلوبل ولیج کے نئے چودھری کے طور پر امریکا کی مکمل بلاشرکتِ غیرے بالادستی مسلّم تھی۔ یک قطبی دنیا اور اس پر فرعونی اقتدار کا نشہ دیدنی تھا۔ جنگ خلیج میں امریکی صدر بش سینئر کا یہ فرمان (رائٹر) کہ یہ ایک چھوٹے سے ملک سے بہت بڑھ کر ایک تصور ہے۔ ایک نیا عالمی نظام۔ نیو ورلڈ آرڈر! سعودی عرب میں امریکی فوجیوں کو خوش آمدید کہتے، ان کے درمیان گھرے صدر بش کی فاتحانہ مسکراہٹ دیدنی تھی۔ اس کے بعد نائن الیون ہوا۔ بلاشرکتِ غیرے قوت کا مرکز امریکا، اور اس کی ایک للکار پر پوری دنیا اس کے جلو میں افغانستان پر ٹوٹ پڑنے کو تیار! تاریخ عالم نے ایسا منظر کب دیکھا ہوگا۔ خیال تھا کہ دنوں میں افغانستان تہس نہس کرکے، بدلہ چکاکر کہانی مکمل ہوجائے گی۔ امریکی تجزیہ کاروں، تھنک ٹینکوں نے بہت تھیوریاں لڑھکائیں۔ دعوے کیے۔ ... End of History  تاریخ بھی گویا آخری موڑ مڑ گئی۔ پھر اس کے بعد 20 سال چل سو چل۔ مسلمان ممالک اجاڑنے، کمیونزم کی جگہ اسلام کے خلاف سرد نہیں جہنم زار قسم کی کھلی جنگ چل پڑی۔ شرق تا غرب، عراق، شام، یمن، لیبیا، شمالی افریقہ کے ممالک، کھلی چھٹی دیکھ کر میانمار کے بدھ، بھارت کا مودی، یورپ میں بالخصوص فرانس اسلام اور مسلمانوں پر پل پڑے۔ پلوں کے نیچے مسلمانوں کے خون میں رنگا بہت سا پانی بہہ گیا۔ تاہم انہی پلوں کے اوپر امریکا نیٹو کے جہاز دبے پاؤں اپنے فوجیوں کے تابوت، معذور، پاگل، نفسیاتی فوجی مریض لے جاتے ہانپ گئے۔ یہاں تک کہ دنیا نے ایک نئی صبح طلوع ہوتے دیکھی۔ 29 فروری 2020ء میں یک قطبی دنیا کا چودھری مذاکرات کی میز پر بیٹھا نہتے طالبان سے دوحہ معاہدے پر دستخط کرکے (جان بچی سو لاکھوں پائے)، اس جنگ سے نکلنے کی راہ پا لینے میں کامیاب ہوگیا! پوری دنیا کی بحری بری ہوائی بے مثل فوجی قوت، جدید ترین عسکری وسائل جھونکے گئے۔ دنیا عمامہ پوش سادہ شرعی حلیوں میں ملبوس سکینت بھری فتح کے دور میں داخل ہوتے طالبان کو بہ صد حیرت وحسرت ویاس دیکھنے پر مجبور تھی۔ اسی دوران یک قطبی دنیا میں چین دبے پاؤں معاشی، دفاعی اور سیاسی اعتبار سے قوت بن کر ابھرنے لگا۔ روس بھی کھوئی ہوئی طاقت کی بحالی میں لگا رہا۔ خاموشی سے مکمل منظر بدلا تآنکہ 15 اگست 2021ء میں طالبان کابل اور پورے افغانستان پر دیکھتے ہی دیکھتے چھا گئے۔ امریکی انخلا C-17  میں جس خونچکاں افراتفری اور شرمناک ہڑبونگ میں ہوا وہ تاریخ میں ثبت ہوگیا۔ امریکا گھر پہنچ کر ابھی سانس درست کر رہا تھا۔ زخمی معیشت، موسمی شدید تھپیڑے حال خراب کرتے رہے۔ طالبان سے بدلہ لینے کو افغان عوام کے اثاثے دباکر انہیں سسکاتے رہے کہ ایک ناگہانی آن پڑی۔ ساری جنگیں اور ہتھیار ہماری زمینوں پر آزمانے والوں کو یورپ میں لینے کے دینے پڑ گئے۔ دھمکیاں دیتا روس اچانک یوکرین میں جا گھسا۔ پہلے اس کے دو صوبوں کو آزاد ریاستیں قرار دے کر تسلیم کیا، پھر امن قائم کرنے کو اپنی فوج داخل کردی۔ اب یہ امن کا متوالا یوکرین پر مشرق، شمال جنوب سے چڑھ دوڑا۔ 40 میل لمبا روسی ٹینکوں ودیگر کا قافلہ کیف کے مکمل گھیراؤ کے لیے چل پڑا۔ امریکا یورپی یونین جنگ سے دامن بچائے چپکے بیٹھے ہیں۔ امریکا کا نشہ اتر کر اب روس پر جا چڑھا ہے۔ روس کا بھی نشہ پہلے افغان توڑ چکے اب دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ روس کے اس اچانک اقدام نے پورے گلوب پر زلزلہ برپا کردیا۔ مغرب نے معاشی پابندیاں عائد کرکے روس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے۔ غیرملکی اثاثے منجمد کیے ہیں۔ تاہم مغرب کے لیے اہم ترین روسی تیل گیس ودیگر خام مال کے اثاثے بند ہوجانے کی بلا کچھ کم نہیں۔ یوکرین میں استعماری مفادات سینگ لڑا رہے ہیں۔ لاکھوں افراد شدید سردی میں دربدر ہیں۔ دنیا بھر کے عوام مفاداتی جنگ بازوں کے نرغے میں چرکے کھا رہے ہیں۔ یوکرین میں جنگ نے ہمارے ہاں مہنگائی کی نئی لہر دوڑا دی۔ یوکرین اگرچہ غیرمتوقع طور پر زبردست مزاحمت دکھا رہا ہے، تاہم یوکرین صدر کی یہ دہائی ہے کہ دنیا نے اسے تنہا چھوڑ دیا۔ نیٹو، امریکا نے یوکرین کے دفاع کے لیے زبانی جمع خرچ کے ساتھ یوکرین کو اسلحے کی فراہمی سے مدد اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ اصلاً امریکا نیٹو کی کمزور سیاسی ساکھ اور معیشت کی دگرگوں صورت حال نے اسے کھوکھلا کردیا ہے۔ افغانستان کے چرکے بھاری پڑے۔ حال یہ ہے کہ: کوئی آ کھے پیڑ لکے دی کوئی آ کھے چک، سچی گل محمد بخشا اندروں گئی اے مُک۔ امریکا کو اس کیفیت میں مبتلا دیکھ کر روس نے لگے ہاتھوں شوخی میں آ کر یہ نہایت خطرناک اقدام کر ڈالا ہے جس پر دنیا لرزہ براندام ہے۔ نائن الیون سے بڑا عالمی بحران اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ امریکا نیٹو کے سر پر یہ تلوار لٹک رہی ہے کہ اگر روس یوکرین پر قبضہ کرنے یا اسے غیرمستحکم کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پورا یورپ بدل جانے کا اندیشہ ہے۔ اس سے امریکا کے لیے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ براہ راست تصادم کی سی کیفیت میں آمنے سامنے کھڑی، ایٹمی طاقتیں ہیں۔ روسی پیش قدمی نے یکایک عالمی نظام الٹ دیا، تتربتر کردیا ہے۔
صلیبی جنگ کے نشے میں بش اور امریکی تھنک ٹینکوں کی 2001ء کے بعد کی بڑھکیں اور خدائی کی دعویداری رہی۔ اب روسی ٹینکوں کے یوکرین میں قدم رکھتے ہی پچھلا ورلڈ آرڈر درہم برہم ہو گیا، تنازعہ گمبھیر ہے۔ ایک لطیفہ یہ ضرور ہے کہ ملالہ یوسف زئی نے روس سے کہہ دیا ہے کہ یوکرین پر حملے فوراً بند کرے۔ روس دیکھیے اب کیا کرتا ہے! ادھر ہم بھی عین اس گھڑمس میں روس جا پہنچے۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں روسی چینل کو انٹرویو دیا کہ ہم کسی بلاک کا حصہ نہیں بنیںگے۔ یہ بھول گئے کہ ہم مغرب کی غلامی میں آئی ایم ایف کی زنجیر سے بندھے چل رہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی طرف سہمے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ روس ہمارا اس وقت کیا سنوارے گا جو حالت جنگ میں ہے خود اپنے 80 ارب ڈالر منجمد کرا بیٹھا ہے۔ روس کے لیے بھی یہ جنگ اس کی امیدوں کے برعکس اتنی سہل نہیں۔ آسٹریلیا نے بھی روس پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ تاہم وزیراعظم اس دورے سے ہمارے لیے 20 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کا سامان کر آئے ہیں۔ روٹی جس دن سستی ہوگی تو گویا وہ دورے کی کامیابی کا دن ہوگا عوام کے نزدیک! حکمران تو کیک کھانے والے ہیں درآمد شدہ!
یوکرین میں دس لاکھ مسلمان ہیں۔ یوکرینی صدر اسرائیل نواز پکا یہودی ہے۔ اس کی اسرائیل نوازی فلسطین دشمنی پر مبنی ایک کلپ گردش میں ہے۔ سو ہمارے نزدیک تو امت کی سطح پر اللھم اھلک الظالمین بالظالمین واخرجنا منھم سالمین غانمین۔ یا اللہ ظالموں کو باہم دگر (لڑاکر) ہلاک کر اور ہمیں ان کے بیچ سے سالم غانم، غنیمت (صورت افغانستان) لے کر نکلنے والا بنا دے۔ یہی روس ہے جس نے 2015ء سے آج تک بشار الاسد کے ساتھ مل کر شام کے مظلوم ومقہور مسلمانوں پر قیامتیں ڈھائیں۔ شامی عمارات کھنڈرات میں تبدیل کردیں۔ ہر سال بالعموم اور اس سال بالخصوص عورتوں بچوں نے خیموں میں برف اور برف زدہ پانی میں ٹھٹھرتے زندگی موت کے درمیان معلق وقت گزارا۔ یوکرین پر پورا گلوب تھرا اٹھا، شام پر نگاہ اٹھاکر بھی دیکھنا گوارا نہ ہوا! دنیا کا میڈیا بھی بے رحم، قساوتِ قلبی کا مریض مسلمانوں پر گونگے کا گڑ کھاکر بیٹھا رہتا ہے۔ شامیوں کی آہیں کراہیں روس کو آتش بداماں کرسکتی ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان: ’میں نے اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا‘۔ آج دنیا کے بڑے بڑے چودھریوں جغادریوں کے ارادے چکناچور ہوئے پڑے ہیں۔ اللہ کو پہچاننے والی بصارت وبصیرت سے محروم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم بیٹھے ہیں!
پاکستان میں مارچ کے مہینے کو اسم بامسمٰی بناکر ہمہ نوع مارچ تیار ہے۔ قوم بھوک افلاس کی ماری شدید کمزور حافظے کی مالک ہے۔ نہ اسے یہ یاد رہتا ہے کہ جو پچھلے والے نئے بن بن کر سامنے آ رہے ہیں ان کے ادوار میں کون سی دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ یوں بھی نئی حکومت تختہ الٹ کر بنا بھی دی گئی تو معیشت جس طرح ادھڑی پڑی ہے اس کے سنوار کا نسخہ کسی کے پاس نہیں۔ سمجھ لیجیے کہ تقاریر میں ’یہ کردیںگے وہ کردیںگے‘ سنانے ہی کے لیے جلسے سجائے جاتے ہیں۔ عوام الناس کی حقیقی ہمدردی، دردمندی دلسوزی کے بیش بہا مناظر لٹے پٹے افغانستان میں ہیں، وہاں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر جیسے تیسے عوام کی ضروریات پوری کرنے والے حکمران نظر آتے ہیں۔ وہ امریکا کو بھی تنقید کرکے یہاں سے لے جاکر امریکا نواز، امریکی ترجمان افغانوں کی کس مپرسی پر اسے متوجہ کر رہے ہیں۔ (باوجودیکہ یہ طالبان کے بدترین دشمن افغان تھے!) ہمارے ہاں حکومتیں صرف وزیروں کے دن پھیرنے کو بنتی ہیں عوام سے انہیں کیا سروکار۔ عوام تالیاں پیٹتے صرف جلسوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔ خوش گمان اتنے کہ؎
ان کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں
یہی رنگِ حنا کل تک امریکا یورپ کے ہاتھوں پر تھا۔ اب روس کی باری ہے! ہم سبھی کے جھولی چک ہیں! دنیا کے بیشتر حکمرانوں کے ہاتھ حنائی ہیں!

مصنف کے بارے میں