اسلام آباد:اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس حسن اظہر رضوی بھی پانچ رکنی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔
بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہیں۔ ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے سی گرین /فیروزی رنگ کا کرتا پہنا ہوا ہے۔
چیف جسٹس کا بانی پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ بظاہر بانی پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو ایمنسٹی کیوں دی، برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے بتائیں وہاں کیوں ایمنسٹی نہیں دی جاتی۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں نے عدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا، اس وقت یہ بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا۔ باہر جاکر بڑے شیر بنتے ہیں سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا، اصولی موقف میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے مؤکل 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے؟ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟ کیا اب پانی پی ٹی ائی کو کہہ دیا جائے پرانے قانون کے تحت اپنے اثاثے ثابت کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے اگر نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس نہ ہوا تو بانی پی ٹی آئی خود متاثر ہونگے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے اگر نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس نہ ہوا تو بانی پی ٹی آئی خود متاثر ہونگے۔جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہامانیٹرنگ جج والے کیس میں آپ وکیل تھے جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔ طاقتور اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نہ ہوسکا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا رسید مانگنا کسی کو بلیک میل کرنے کے مترادف نہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے کہا کیا آپ سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں جیسا قانون پہلے تھا وہی برقرار رہے۔