اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس د یئے کہ توہین عدالت کا فیصلہ کرنا عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا کوئی بھی معاملہ ہو، چیف جسٹس نے حل کرنا ہے، ہم توہین عدالت میں ججوں کو فریق نہیں بناسکتے۔
آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار حنیف راہی کو ہدایت کی کہ توہین عدالت کا فیصلہ کرنا ان کا کام نہیں وہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔ ہم توہین عدالت میں ججوں کو فریق نہیں بناتے۔ آپ پہلے اپنی درخواست پر اعتراض ہٹائیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وہ پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دینا چاہیں گے۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟ چیف جسٹس پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضہ کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا، اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے جنہیں کمیشن کے قیام پر آگاہ نہیں کیا گیا۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر شامل پانچ رکنی بینچ نے کی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔
’کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازعہ ہیں۔ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ نے کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ ہم میں سے تین کے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ میں چاہو گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم معاملہ پر توجہ دیں جوعدلیہ کی آزادی کا ہے۔‘