میں نے 2001 ء میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (سابقہ ڈی ایم جی) میں شمولیت اختیار کی، مجھے اس پریمیئر سول سروس کا ، رکن رہنے پر فخر ہے، جس میں اب بھی کچھ روشن ذہن موجود ہیں جو مشکل حالات میں ملک کی خدمت کے لیے پرعزم ہیں،سروس کے دوران مجھے بہت سے اہم عہدوں پر انتہائی لگن اور عوامی خدمت کے جذبے کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، ملک میں پہلی بار میری طرف سے کئی منصوبے متعارف کرائے گئے جن میں رفتار، معیار اور اعلیٰ کارکردگی کو اس سطح پر پہنچایا گیا جس کیآج تک کوئی مثال نہیں ملتی۔
2018 ء کے عام انتخابات سے پہلے، نیب نے ایک سیاسی مہم جوئی کا آغاز کیا ،مجھے اس میں ملوث کرنے کے لئے فروری میں گرفتار کر لیا گیا ، اس کے بعد قومی میڈیا پر میرے خلاف بڑے پیمانے پر توہین آمیز مہم چلائی گئی،کئی گرفتاریاں کی گئیں اور میرے خلاف متعدد انکوائریوں کاآغاز کیا گیا، جس کا مقصد مجھے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کرنا تھا، انتخابات میں حصہ لینے والی مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے موقع غنیمت جانا، میرے حوالے سے ہر قسم کے بیانات دئیے اور پریس کانفرنسیں کیں،یہاں تک کہ انتخابی مہم کے دوران بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اشتہارات اور انتخابی مواد میں میرا نام اور تصاویر آویزاں کی گئیں، جھوٹی گواہی لینے کے لئے مجھ پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے خواتین سمیت میرے پورے خاندان کو ہراساں اور پریشان کیا گیا۔
حکومت پاکستان، جس کے لئے میں کام کر رہا تھا ، اس عرصے کے دوران، سول سروس ایکٹ 1973 کے سیکشن 23A اور 23B کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے خاموش تماشائی بنی رہی ، حکومت یا اس کے کسی بھی حصے نے ان حقائق پر کبھی غور نہیں کیا کہ میں نے سروس کے تمام ٹریننگ کورسز میں ٹاپ کیا ، پوری سروس کے دوران مجھے آؤٹ سٹینڈنگ رپورٹس کے ساتھ نوازا گیا، میری دیانت اور محنت ،بہترین درجے کی رہی اور مجھے عوامی خدمت کے میدان میں بہترین کارکردگی پر تمغہ امتیاز سے نوازا گیا کہ میں نے اپنی نگرانی میں لگائے گئے بڑے منصوبوں میں 150 ارب روپے سے زیادہ کی بچت کی تھی۔
میں اب تک اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جب میرے خلاف سرکاری کام کی ادائیگی میں کوئی الزام لگایا گیا تو حکومت نے مجھے قانونی نمائندگی یا کوئی اور مدد فراہم کرنے کے بجائے مکمل طور پر الگ رہنے کو کیوں ترجیح دی اور حالات کو مزید خراب کرنے کیلئے مجھے سروس سے معطل کرنے کے لئے پیش رفت کی تب ہی یہ مشکل حقیقت مجھ پر آشکار ہوئی کہ میرے اجر کے لئے میری خدمات کے تمام فوائد اس کے لئے تھے، اورتمام خطرات میرے تھے۔
2021ء میں ضمانت پر رہا ہونے کے بعد، مجھے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے ای اینڈ ڈی رولز کے تحت شو کاز نوٹس اور چارج شیٹ کیا گیا ، اتنی تاخیر سے ہونے والے اس مرحلے پربھی لفظ بہ لفظ وہی الزامات مجھ پر لگائے گئے جو نیب نے میرے خلاف اپنے ریفرنس میں دائر کیے تھے،د وران تفتیش یہ واضح ہو گیا کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات جھوٹے، غیر سنجیدہ، من گھڑت ، ریکارڈ اور حقائق کے منافی تھے،مندرجہ بالا تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں یہ سوچنے اور تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ کیا میں پہلے جیسے جوش اور جذبے کے ساتھ سول سروس کا حصہ نہیں رہ سکتا،میں ایسے نظام میں نوکری قبول نہیں کر سکتا جو اچانک اور آسانی سے یہ سوچنا شروع کر دے کہ میں کرپٹ ہوں، مجھ پر ظلم ہوتا ہے، مجھ پر مقدمہ چلایا جاتا ہے اور میرا اجر یعنی حکومت مجھے قانونی تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے ، یہ حالات سروس رولز کی بنیادی اقدار ،ذاتی وقار اور مقصد کے بھی منافی ہیں، اس لئے میں سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوشی کا اعلان کرتے ہوئے استعفیٰ دیتا ہوں۔
قارئین،یہ متن اس بیوروکریٹ کے استعفیٰ کا ہے جس پر ہم سب کو فخر ہونا چاہئے ،یہ احد خان چیمہ کا استعفیٰ ہے جو وزیر اعظم نے منظور کر لیا ہے۔ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے ، حکومت اور ریاست دراصل دھرتی کے فرزندوں کی نگہبان ہوتی ہے ،ریاست کے ملازمین حکومت کے بچے ہوتے ہیں جو ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور اس مقصد کیلئے ریاست ان کی تربیت پر وقت اور بڑا سرمایہ خرچ کرتی ہے اگر بیٹے ریاست کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کر سکیں تو ریاست ان کو قبل از وقت یا جبری ریٹائر کر سکتی ہے لیکن اگر ریاست نگہبانی کا فرض بجا طور ادا نہیں کرتی تو ریاست پر بھی الزام آتا ہے اور یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی ماں اولاد کی پرورش اور تربیت کا فریضہ انجام دینے میں کوتاہی برتتی رہی،نیک نام،دیانتدار،محب وطن،اصول و قواعد کے پابند،محنتی اور دوران ملازمت کچھ کرنے کے خواہش مند احد چیمہ کا حال بھی اس بیٹے کا ہے جس کیساتھ ریاست اور حکومت نے اچھا نہیں کیا ،جن سیاستدانوں کو نیچا دکھانے کیلئے احد چیمہ جیسے اچھے افسر کو نشانہ بنایا گیا وہ تو پھر سے حکومت میں ہیں ،اچھا ہوا احد چیمہ نے از خود ریاست اور حکومت کی ملازمت سے علیحدگی اختیار کر لی۔
احد چیمہ جو سابق حکومت کیلئے نامعلوم وجوہ کی بناء پر ناپسندیدہ تھے انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے،ان کا جرم ماضی میں ن لیگی حکمرانوں کا قابل اعتماد ہونا تھا جو وہ اب بھی ہیں انہیں موجودہ لیگی حکومت میں بھی اعلیٰ عہدوں کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے کمال متانت سے انکار کر دیا،سابق حکومت نے اس ذہین،متعدد منصوبوں کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ریاست کا سرمایہ دانتوں میں پکڑ کر خرچ کرنے والے ، اربوں روپے کی بچت کرنے والے افسر کی لیاقت سے فائدہ نہ اٹھایا اور ان کو قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار کیا تو بد دل ہو کر اب ملک و قوم کے سرمائے نے خود کو ریاست سے الگ کر لیا ہے،احد چیمہ کا استعفیٰ دراصل ہمارے نظام،بیوروکریٹک اور سیاسی سسٹم کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے، مگر سچ یہ ہے کہ احد چیمہ کے استعفیٰ پر دل خون کےآنسو رو رہا ہے،کیا کسی کو اس کی حب الوطنی کی اتنی بڑی سزا دی جا سکتی ہے؟ یہی رویہ تھا جس کے سبب ملک کے اعلیٰ دماغ گزشتہ تین دہائیوں میں بیرون ملک جا آباد ہوئے اور ملک قحط الرجال کا شکار ہو گیا،کیا عجب احد چیمہ بھی کوئی ایسا فیصلہ کر گزریں،اگر ایسا ہوا تو یہ ملک و قوم کا بہت بڑا خسارہ ہو گا، احد چیمہ کا استعفیٰ ماضی و حال کے حکمران طبقے کیلئے آئینہ اور محب وطن پاکستانیوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے،یہ استعفیٰ نوحہ ہے ان تمام سرکاری افسران کا جو نا کردہ گناہوں کی سزا بھگتتے رہے اور بھگت رہے ہیں،یہ استعفیٰ محض استعفیٰ نہیں بلکہ سسٹم،سیاست اور حکومت کے دامن پر سیاہ دھبہ ہے۔ ہماری ملکی سیاست کی چپقلش نے ، ماضی میں ملک ربنواز جیسے افسر گنوا دئیے، فواد حسن فواد جیسے ذہین افسر انا کی بھینٹ چڑھا دئیے ،راؤ تحسین،جیسے میڈیا ماسٹر قربان کر دئیے اور اب احد چیمہ خود ہی چھوڑ گئے، بیوروکریسی کا اللہ حافظ۔
احد چیمہ کا تھپڑ
09:04 AM, 6 Jun, 2022