حالات کب بدلیں گے؟

 حالات کب بدلیں گے؟

گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان کے غریب عوام کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا ہے۔ اشیائے خوردو نوش ہوں، ادویات ہوں، بجلی ، گیس ہوں، پٹرول، ڈیزل ہوں یا دیگر اشیائے ضروریہ، ان سب کی قیمتوں نے عوام الناس کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ عمران خان کی حکومت رخصت ہوئی تو امید بندھی تھی کہ شہباز حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا اہتمام کرے گی۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ کمر توڑ مہنگائی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ موجودہ حکومت نے پوری کر دی ہے۔ پٹرول ،ڈیزل کی قیمتوں میں ہونے والے بے حد اضافے نے لوگوں کی زندگی مزید مشکل بنا ڈالی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کی اطلاعات ہیں۔ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ پٹرول ، بجلی، گیس کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ بیسیوں دوسری اشیاء کی قیمتیں بڑھانے کا بھی باعث بنتا ہے۔ اب لا محالہ پٹرول کی قیمت بڑھی ہے تو منڈیوں سے سبزی ، پھل وغیرہ لانے لیجانے کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔ نتیجہ یہ کہ عوام کو مہنگے داموں پھل ، سبزیاں خریدنا پڑیں گی۔ بالکل اسی طرح ٹرانسپورٹرز بھی کرایوں میں اضافہ کر دیں گے۔ لہٰذا اس کا بوجھ بھی عوام کے نازک کاندھوں پر لادا جائے گا۔ بہرحال مہنگائی کا ایک طوفان ہے جو اس وقت عوام کو درپیش ہے۔ ایک مصیبت یہ ہے کہ دن اور رات کے اوقات میں ہونے والی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے بھی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ یعنی نہ تو لوگ دن کے وقت سہولت سے گھر کے کام کاج کر نے کے قابل ہیں اور نہ ہی رات کو چند گھنٹے سکون کی نیند سو سکتے ہیں۔ 
حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے بر سر اقتدار آئے مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہی گزرا ہے۔ ان چند ہفتوں میں اسے ایسے مشکل فیصلے کرنے پڑے ، جن کی وجہ سے اسے ہر طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ماہرین معیشت بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ ملک اس حکومت کو کس بد تر معاشی حالت میں ملا ہے۔ معیشت کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ساڑھے تین برسوں میں معیشت کس تیزی سے زوال پذیر ہوئی۔قومی خزانے کی حالت کس قدر نازک تھی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے کا معاہدہ اور وعدہ عمران حکومت نے آئی۔ ایم۔ایف سے کیا تھا۔ اب اگر موجودہ حکومت پچھلی حکومت کی طرف سے کئے گئے وعدے کی پاسداری نہ کرتی تو آئی۔ ایم۔ایف قرض کی قسط جاری کرنے سے انکاری تھا۔ کچھ دوست ممالک بھی پاکستان کی مدد کرنے کو تیار تھے، مگر اس شرط پر کہ آئی۔ ایم۔ایف سے کئے جانے والے وعدے کی تکمیل کی جائے۔ موجودہ حکومت کو اپنی سیاسی ساکھ اس وجہ سے داؤ پر لگانا پڑی کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے۔اس حکومت کے ناقد صحافی اور تجزیہ کار بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت اس قدر بھاری بھرکم سبسڈی کا بوجھ نہیں جھیل سکتی۔عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ عوام پر لادنا ضروری ہو چلا تھا۔معاشی معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں مہنگائی کی شدید لہر اٹھی ہوئی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں بسنے والے بھی بڑھتی مہنگائی اور اخراجات سے عاجز آئے ہوئے ہیں۔ کل ہی ایک قومی اخبار میں رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں تفصیل بیان کی گئی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں مہنگائی کس قدر بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا، برطانیہ، یورپ، ترکی، بنگلہ دیش اور بھارت میں مہنگائی کی شدید لہر جاری ہے۔ بھارت میں مہنگائی 7.8 فیصد، امریکا میں 8.3 فیصد،جرمنی میں 8.7 فیصد، اسپین میں8.5 فیصد، بنگلہ دیش میں 6.29 فیصد، ترکی میں 7.3  فیصد ہو چکی ہے۔ بڑھتی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ تو کرونا ہے۔اس وبا نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے گیس اور تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ان پر قابو پانا کسی ملک کے بس کا روگ نہیں ۔
اقتصادی معاملات کی سمجھ رکھنے والے ان حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ عالمی امور سے آگہی رکھنے والے بھی اس صورتحال کو اچھی طرح  سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا تحقیق سے تھوڑا بہت بھی تعلق ہے، اس کے لئے بھی ان حقائق کی تفہیم مشکل کام نہیں۔ لیکن عام آدمی کو ان اعداد و شمار کی پوری طرح سمجھ بوجھ ہے اور نہ ہی اسے عالمی امور سے کوئی دلچسپی ہے۔ اسے یہ بھی غرض نہیں کہ تحریک انصاف ملک کو کس ابتر حالت میں چھوڑ کر گئی ہے۔ عام آدمی کو یہ سب باتیں سمجھانا بہت مشکل ہے۔ اس کی دلچسپی کا محور صرف اس کے روزمرہ معاملات حیات ہیں۔ عام آدمی صرف یہ پوچھتا ہے کہ ملک کے حالات کب بدلیں گے؟ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اسے اس بد ترین مہنگائی سے کب نجات حاصل ہو گی؟ کب اس کی قوت خرید اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا بوجھ اٹھانے کی متحمل ہو سکے گی؟ کب اس کے لئے روزگار کے بے شمار مواقع میسر ہوں گے؟ کب اسے بجلی، پٹرول اور گیس سستے داموں میسر آئے گی؟ کب وہ وقت آئے گا جب اس کے بچوں کے تعلیمی اخراجات با آسانی اس کی پہنچ میں ہو ں گے؟  وہ حکومت وقت سے بس ان سوالوں کے جواب مانگتا ہے۔ 
 غیرجانبداری سے دیکھا جائے تو یہ بات درست ہے کہ محض چند ہفتوں میں کوئی بھی حکومت ملک کی سمت درست نہیں کر سکتی۔ نہ یک دم قومی معاملات کی مکمل اصلاح احوال کی جا سکتی ہے۔راتوں رات عوام کی زندگیوں میں آسانی لے لینا بھی چند ہفتوں میں قطعا ممکن نہیں ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کیا ہے تو عمران خان کی کوتاہیوں کا بوجھ بھی اسے ڈھونا پڑے گا۔ اس حکومت کی ذمہ داری ہے کہ دن رات کام کر کے عوام الناس کی زندگیوں میں آسانی لے کر آئے۔ یہ سب کیسے کرنا ہے یہ وزیر اعظم، وزیروں، مشیروں کے سوچنے کا کام ہے۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں تو وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وزیروں، مشیر وں کے سرکاری پٹرول استعمال کرنے پر پابندی ہو گی۔ پنجاب نے بھی وزیروں ، مشیروں اور سرکاری افسران کیلئے یہ اعلان کیا ہے۔ کراچی میں بھی سرکاری افسران کے پٹرول میں کچھ کمی کی گئی ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت نے سادگی اور بچت کو رائج کرنے کے لئے کچھ اور اعلانات بھی کئے مگر یہ سب اقدامات انتہائی ناکافی ہیں۔ حکومت کو چاہیے اس ضمن میں طویل المدت منصوبہ بندی کرے۔ میں نے گزشتہ کالم میں توانائی کی بچت کے حوالے سے کچھ تجاویز دی تھیں۔ عرض کیا تھا کہ ورک فرام ہوم اور شام ڈھلتے ہی بازار بند کرنے کے طریق کار کو رواج دینا چاہیے۔ دو دن پہلے قمر زمان کائرہ کا ایک بیان نگاہوں سے گزرا جس میں انہوں نے ان اقدامات کی حمایت کی ہے۔ اللہ کرے کہ اس ضمن میں مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کر لیا جائے۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ کاش موٹر سائیکل، سکوٹر اور رکشے والوں کو پٹرول نسبتاً کم قیمت میں فروخت کیا جائے۔اور پٹرول سبسڈی کا زیادہ بوجھ بڑی گاڑیوں پر منتقل کر دیا جائے۔ 
 شہبازحکومت کی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد ایسے اقدامات اٹھائے ، جس سے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی زندگی کے حالات بہتر ہوں۔ ریلیف کی فراہمی میں زیادہ تاخیر ہو تی ہے تو یہ تاخیر شہباز شریف کی حکومتی اور سیاسی ساکھ پر منفی اثرات ڈالے گی۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوگا کہ عوام الناس جمہوریت سے اور سیاست دانوں سے مزید مایوس ہو جائیں گے۔

مصنف کے بارے میں