25 مئی کے ناکام لانگ مارچ کے بعد دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کی ڈیڈ لائن گزر گئی۔ 6 دن بعد آنے کو کہا تھا دس دن ہو گئے کوئی خط نہ پتر، لیڈر کو دیکھنے کے لیے اکھیاں ترس گئیں۔ اسلام آباد کے عوام کے لیے ایک ہی تفریح کا سامان تھا ممتاز گلوکاروں کے گانے، ڈھول تاشے، کنسرٹ، ناچ گانے اور اس کے بعد جذبات میں آگ بھڑکانے والی تقریریں کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ ’’تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے‘‘ لانگ مارچ پارٹ ٹو کے لیے 2 جون کے بعد سے تاریخ پر تاریخ دیے چلے جا رہے ہیں۔ وجہ گھبراہٹ، ہچکچاہٹ یا پھر خطرناک عزائم، گھبراہٹ کی واحد وجہ تو رانا ثناء اللہ ہیں۔ جن کے خلاف ’’گھر جا کر شکایت لگائی ہے‘‘ بڑا ظالم ہے گجی مار مارتا ہے ابھی تک زخم سہلا رہے ہیں۔ ’’رانا رانا بڑا لڑیا ون کی سہی نہ جائے مار۔‘‘ زخم ایسے لگائے کہ دکھائے بنے نہ چھپائے۔ شیخ رشید سمیت سارے لیڈر روپوش ہو گئے پارٹ ون کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ لیڈر بھاگ گئے عوام گھروں سے نہ نکلے، کیوں؟ کسی نے کہا ’’معصوم لوگ ایسے بھی سادھے نہیں رہے۔ پہچاننے لگے ہیں وہ لیڈر کی سازشیں۔ رفت گزشت جو نہیں ملا اسے بھول جا عمران خان لانگ مارچ پارٹ ٹو کے لیے تیاریوں میں ہمہ تن مصروف کور کمیٹی کے اجلاس میں اس پر طویل بحث ہوئی لیکن ’’اندر کے ایک با اعتماد جاسوس‘‘ کے مطابق کمیٹی کے بیشتر ارکان نے لانگ مارچ پارٹ ٹو کی مخالفت کی تاہم کپتان کی انا اور مفاد پرستی آڑے آئی۔ فیصلہ ہوا مارچ تو ہو گا تاہم حفاظتی اقدامات کے سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا جائے۔ ایک نہ مانے تو دوسرے پر نظریں کیا جمہوریت ہے جو پارلیمنٹ کے بجائے دوسروں کی طلب گار ہے، شیخ رشید کی ایسی جمہوریت پر… ہم کیوں کہیں۔ درخواست دی گئی مائی باپ ہمیں اسلام آباد آنے کے لیے تحفظ دیا جائے پُر امن مارچ ہمارا بنیادی جمہوری حق ہے۔ رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں چھاپے نہ مارے جائیں تشدد نہ کیا جائے، سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اعتراض لگا کر درخواست واپس کر دی۔ اسی قسم کی درخواست پہلے زیر سماعت ہے چیف جسٹس نے انٹیلی جنس ایجنیسیوں سے ایک ہفتہ میں چھ سات سوالات کے جوابات مانگ لیے اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی سامنے آ گیا۔ انہوں نے عمران خان کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا چیف جسٹس نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں آنے والے عذاب سے بچا لیا۔ عدالت کے معاملات ہیں عدالت والے جانیں ہمیں تو اتنا پتا ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد کپتان واقعی خطرناک ہو گئے ہیں فرح گوگی نے جہانگیر ترین کی جگہ سنبھال لی۔ دبئی سے مبینہ طور پر ایک ارب 25 کروڑ کا ہیلی کاپٹر تحفہ کے طور پر بھیج دیا۔ کپتان آج کل اسی میں سیر کرتے پھرتے ہیں۔ گفٹ دیا ہے کرپشن تو نہیں ہوئی نا۔ شنید ہے کہ کپتان نے دھرنے اور لانگ مارچ کے لیے خیبر پختونخوا کے بیت المال سے 80 کروڑ روپے نکلوا لیے ہیں لانگ مارچ پارٹ ٹو پر کتنے اخراجات ہوئے؟ ڈی چوک پر آگ لگانے والے مبینہ افغان باشندوں کو ایک ایک لاکھ پر لائے جانے کی خبریں بھی گشت کرتی رہیں۔ لانگ مارچ پلس دھرنا پارٹ ٹو خطرناک صورتحال نہیں لیکن بد قسمتی سے خیبر پختون سے آنے والی خبریں دہلا رہی ہیں۔ کپتان ملک کے تین ٹکڑے ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے جلد فیصلہ نہ کیا (مراد یہ کہ مجھے اقتدار نہ
دیا گیا) تو تباہ ہو جائے گی۔ بعض چینلوں کے مطابق فوج کے بارے میں بھی غلط زبان استعمال کی گئی حیرت ہے مقتدر حلقے ان کی یاوہ گوئی کو سیریس نہیں لے رہے۔ آج تک کسی لیڈر نے اقتدار نہ ملنے پر ایٹمی اثاثے چھین لیے جانے کی دھمکی نہیں دی۔ خان صاحب نے ترنگ میں دے دی۔ سیانے اور محب وطن لوگ ان ریمارکس اور تقریروں پر خوفزدہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ خان بابا کو آئین اور قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ خاموشی اختیار کیے رہے تو نوبت سرخ لکیر تک پہنچ جائے گی۔ وطن عزیز سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد کسی اور کاری زخم کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ مجیب الرحمان بھی اقتدار نہ ملنے پر سیخ پا ہوا اور بنگلہ دیش بنا کر عبرت ناک انجام کو پہنچا۔ یادش بخیر خان بابا نے 2014ء کے دھرنے کے دوران بھی سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی کوشش کی تھی۔ اب بھی ایک صوبے کو وفاق پر حملہ کی پلاننگ میں لگے ہوئے ہیں ملک کے مفاد میں ہے کہ ان کا راستہ روکا جائے۔ عمران خان کیا چاہتے ہیں؟ حکومت دے دو ورنہ… جہاد، جہاد تو کفار کے خلاف ہوتا ہے، حکم ریاست دیتی ہے۔ اسلام کے سوا دیگر مذاہب میں جہاد حکومت کے خلاف شورش فساد اور جدوجہد کا نام ہے۔ ہمارے علمائے کرام ایسے جہاد کو فی سبیل الطاغوت فساد سے تعبیر کرتے ہیں۔ عمران خان اشتعال انگیز بیانات میں کس کی زبان بول رہے ہیں؟ ان ہی لمحات میں کوئی بھی شخص اصلاً نسلاً پہچانا جاتا ہے وہ عوام کی خدمت کے بغیر سیاست چاہتے ہیں۔ تجزیہ کار اسے ذہنی کیفیت کا نام دیتے ہیں۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ اقتدار سے محرومی ان کے لیے ذہنی صدمہ کا باعث بنی ہے وہ جیسی گفتگو کر رہے ہیں کسی تندرست ذہن اور دل و دماغ والے شخص یا سیاسی لیڈر سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ایک سابق وفاقی وزیر نے بڑے پر اعتماد و لہجہ میں کہا کہ لانگ مارچ اب نہیں ہو گا۔ لانگ مارچ نہ ہوا منیر نیازی کی محبت ہو گئی۔ انہوں نے کہا تھا ’’محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہو گی، گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہو گی‘‘ منیر نیازی اللہ کے پاس چلے گئے محبت قسطوں میں نہ ہو سکی۔ خان بابا مایوس ہیں۔ خان بابا مشتعل ہیں۔ خان بابا صدمہ سے دوچار ہیں۔ خبروں کے مطابق ملک کے تین اہم افراد کی ہلہ شیری (معاونت) سے آگے بڑھ رہے تھے مگر ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ مایوسی کے عالم میں کہا کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ان کی سیاست ملاح کے بغیر کشتی، منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے۔ اسلام آباد آنے سے خوفزدہ ہیں۔ پشاور میں مقیم ہیں وزیر اعلیٰ نے ان کی موجودگی میں دھمکی دی کہ وہ اسلام آباد آمد کے لیے صوبائی فورس استعمال کریں گے۔ ان کا بیان صریحاً بغاوت مگر اسے خیر سگالی پیغام سمجھ لیا جائے۔ تحمل کا مظاہرہ کیا جائے تو کوئی کیا کرے اب تو قریبی دوست بھی گلے شکوے کرنے پر اتر آئے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ متحدہ اور باپ نے ساتھ چھوڑا تو میں سمجھ گیا کہ باپ کا باپ ہمارے ساتھ نہیں رہا مگر عمران آخری دن تک سمجھتے رہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو گی۔ فواد چودھری بولے ’’حالات اس نہج تک پہنچانے میں تحریک انصاف کی اپنی غلطیاں بھی شامل تھیں (غلطیاں کس نے کیں حاشا وکلا فواد چودھری، شیخ رشید، اسد عمر، حماد اظہر، شاہ محمود اور دیگر لیڈروں نے تو ہرگز نہیں کیں) پتا نہیں کس کی غلطیاں تھیں کہ خان بابا ان حالات کو پہنچ گئے۔ کسی نے ٹوئٹ کیا۔ ’’گلاں امریکا دیاں تے ترلے ملک ریاض دے (باتیں امریکا کی اور این آر او کے لیے ملک ریاض کی منت سماجت) لوگ ساتھ دینے سے کترا رہے ہیں۔ ٹیلیفون بند ہو گئے۔ بقول شخصے۔ مزاج اپنا اچانک بدل رہے ہیں چراغ، جو مصلحتوں کی حدوں سے نکل رہے ہیں چراغ۔‘‘ 22 کروڑ عوام کی بد قسمتی کہ ’’جس سے عالم پناہ مانگے ہے اسے عالم پناہ کہتے ہیں‘‘ ساڑھے تین سال ملک پر حکومت کرنے والے ’’بے چہرہ حکمران‘‘ بے چارے عوام کی راہوں میں جو بارودی سرنگیں بچھا گئے ہیں نئے آنے والے سر پکڑ بیٹھے ہیں آئی ایم ایف نے صاف کہہ دیا کہ شوکت ترین پٹرول اور بجلی سمیت تمام سبسڈیز کا خاتمہ کرنے کی دستاویز پر دستخط کر گئے۔ پٹرول اور بجلی کے نرخ بڑھانے کے بعد قرض کی آئندہ قسط ملے گی چنانچہ پٹرول ایک ہفتے میں 60 روپے لیٹر اور بجلی ساڑھے 7 روپے فی یونٹ بڑھا دی گئی غضب خدا کا پٹرول 209 روپے 89 پیسے لیٹر اور بجلی 11 روپے یونٹ سے بڑھ کر 30 روپے یونٹ ہو گئی۔ پی ڈی ایم والے حکومت سنبھالنے پر پچھتا رہے ہوں گے مگر ڈھول گلے میں آ گیا ہے۔ بجانا تو پڑے گا۔ لوگ کہتے ہیں آصف زرداری نے پنجاب میں قدم جمانے کے لیے ن لیگ کو اندھے کنویں میں دھکا دیا۔ اب چیخ و پکار کیوں، جہاں بھی رہیں خوش رہیں متحد رہیں اور اچھے برے حالات کا مقابلہ کریں۔ سارے تجربے ناکام، آئی ایم ایف، چین، ترکی، امریکا، عرب امارات، سعودی عرب ہر طرف سے صرف یقین دہانیاں طفل تسلیاں کہیں سے امداد آئے تو بات بنے ورنہ مہنگائی تو سر چڑھ کر بولے گی۔ اللہ جانے کتنی خزائیں دیکھنا ہوں گی بہار آنے تک۔‘‘