وقت بدل گیا، زمانے بدل گئے، حکمران بدل گئے مگر نہ بدل سکے تو بس پاکستان کے غریب عوام کے حالات نہ بدلے۔ پاکستانی عوام کل بھی مصائب اور مسائل کی یلغار میں آہ و فغاں کرتے نظر آتے تھے اور آج بھی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ غرض یہ کہ عوام کے مصائب کا سفر کبھی کسی مقام پر رُکا اور نہ ہی کبھی کسی منزل پر تھما۔ جبکہ مصائب کی یلغار کی بنیادی وجہ مالی اور معاشی بدحالی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق روز مرہ اور بنیادی اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں ہی تقریباً سو فیصد تک کا اضافہ کیا گیا جبکہ چیک اینڈ بیلنس نا ہونے کی وجہ سے یہی اشیا عوام کو دو سو فیصد مہنگی مل رہی ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے دن بہ دن منہ زور ہو رہے طوفان ِ مہنگائی نے عوام بالخصوص مڈل کلاس یا لفظِ عام میں سفید پوش طبقے کی زندگی مشکل سے مشکل تر کر دی ہے۔ آج کے موجودہ دور میں کون ہے جو دن بہ دن تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان نہیں ہے۔ مہنگائی نے وہ ریکارڈ بنائے کہ عزت سے دو وقت کی روٹی کمانا اور کھانا عام آدمی کے لیے مشکل ہو گیا۔ یہ کہنا کسی صورت بھی غلط نہیں کہ گزشتہ چند سال میں آنے والا ہر دن پاکستان کی مڈل کلاس اور سفید پوش طبقے کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں رہا۔ گاڑیوں والے اب موٹر سائیکل پر اور موٹر سائیکل سوار پیدل ہو گئے ہیں۔ ماہانہ آمدن مہینے کی پندرہ تاریخ سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے، مہینے کے آخر تک جیب اتنی ہلکی ہو جاتی ہے کہ زندگی بھاری لگنے لگتی ہے۔ غریب اور مڈل کلاس گھرانوں کے پاس مشکل وقت کے لیے کوئی اثاثے نہیں ہوتے۔ شعبہِ صحت کی بات کی جائے تو ہسپتال کے اخراجات اور ادویات کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے باعث ہم نے علاج سے کنارہ کشی کر لی ہے۔ سفید پوش طبقے کی تقریباً 80 فیصد آبادی کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہے۔ بجلی کے بل، گھی اور پٹرول کی قیمتیں اب اس طبقے کی دسترس سے باہر ہیں۔ سفید پوش اور غریب لوگوں کے ہاں مہمان داری تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ انکے بچوں کے لیے حصولِ تعلیم پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا
ہے۔ پٹرول اور دیگر اشیائے ضروریات کی آئے روز بڑھتی قیمتوں سے سفید پوش اور غریب لوگوں کے بجٹ اور زندگی پر کیا اور کتنا اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ شاید ہی کسی کو ہو۔ یہاں آٹا بحران ختم ہوتا ہے تو گیس کا بحران شروع ہو جاتا ہے، گیس کے بحران سے نکلتے ہیں تو چینی اور پٹرول کا بحران سر اٹھائے ملتا ہے۔ ویسے تو مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ تقریباً دنیا کے سب ہی ملکوں میں ضروریات ِ زندگی کی قیمتوں میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑی حد تک یہ ایک فطری عمل بھی ہے کیونکہ دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس رفتار سے اضافہ چیزوں کی پیداوار میں نہیں ہوا ہے۔ غالباً سب ہی جانتے ہیں کہ جس چیز کے خواہش مند یا طلب گار زیادہ ہوں تو اس کی قیمت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ دنیا میں لوہے، کوئلے اور پٹرول وغیرہ کے ذخیرے بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کے پیش نظر جس تیزی سے کم ہو رہے ہیں اس تیزی سے نئے ذخیروں اور وسائل کی دریافت نہیں ہو سکتی۔ غرض یہ چند عام سے حقائق ہیں جو دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں مہنگائی کا مسئلہ دنیا بھر کے سبھی ملکوں سے زیادہ شدید اور تشویشناک ہے۔ گزشتہ چند سال سے یہاں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی مہنگائی کے ساتھ ساتھ یہاں بے روزگاری نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے ہمارے ملک میں روزگار کا سلسلہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈالر کی اونچی اُڑان اور پاکستانی روپے کی دن بہ دن گرتی قدر نے مہنگائی کے طوفان کو سونامی میں بدل دیا ہے۔ اب روز بروز اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا براہ راست اثر ان اشیا کی قیمتوں پر ہوتا ہے۔ باقی ماندہ کسر تیل، پٹرول، پھلوں، سبزیوں کی ہر دوسرے دن بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پوری کر دی ہے۔ پٹرول اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹر آئے روز کرائے بڑھا دیتے ہیں۔ بجلی اور گیس کی صورتحال بھی پٹرول اور تیل سے مختلف نہیں ہے۔ دن بہ دن نا قابل ِ برداشت حد تک بڑھتی مہنگائی اس بات کا اشارہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب یہاں کا عام انسان لقمہ خوراک کو ترس جائے گا۔ مہنگائی کی حالیہ لہر اور حکومتی اراکین کی خاموشی یقیناً قابل ِتشویش ہے۔ 2022 کا پیش ہونے والا بجٹ ممکنہ طور پر 2184 ارب کے حجم پر مشتمل ہو گا، گزشتہ برس کی نسبت جس میں صرف پچاس ارب کا اصافہ کیا گیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والا وقت شدید مہنگائی کی زد میں ہو گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس طرح کے قومی بحرانوںکے وقت ہمارے سیاست دان سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے، الٹا ایک دوسرے کو طعنے دینے اور نیچا دکھانے کے لیے الزام تراشی کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
کمر توڑ دی گئی یہاں مہنگائی سے
کریں شکوہ کس بادشاہی سے
وہ جو سانپوں کی طرح ڈستے ہیں
ڈرتے نہیں ہیں قہر الٰہی سے
حالیہ معاشی بحران کو ہی دیکھ لیں جس میں
اپوزیشن اسے حکومت کی نااہلی قرار دے رہی ہے جب کہ بعض حکومتی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ معاشی بحران گزشتہ حکومت کی نا اہلی کے باعث آیا ہے۔ ہماری بدقسمتی کا مزید اندازہ کیجئے کہ کسی بھی مقام پر ہمارے سیاست دان یہ نہیں سوچ رہے کہ بحران کیسے بھی آیا، اس کا ذمہ دار چاہے کوئی بھی ہو مگر اس سب میں پس تو بیچارے غریب عوام رہے ہیں۔ جس کا تعلق نہ تو کسی مل مافیہ سے ہے اور نہ ہی اقتدار میں بیٹھے کسی شاہان ِوقت سے۔ انہیں تو بس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی کی ضرورت ہے جو اسے میسر نہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو وہ وقت دور نہیں جب پورا مڈل کلاس طبقہ غریب طبقے کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیںچینی، آٹا، گھی، تعلیم اور ادویات سفید پوش طبقے کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ جب ماں باپ اپنے بچے کے لیے دودھ نا خرید سکیں اور اولاد اپنے والدین کا علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھے تو سفید پوش اور غریب عوام کی تڑپ شاید ایوانوں کے بجائے سڑکوں پر دیکھی جائے گی۔ یہ طبقے آخر کب تک اپنی محدود آمدنی کے ساتھ زندگی کی لامحدود مشکلوں کو پار کریں گے۔۔۔