واشنگٹن: امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کو چھوڑنے پر غور کر رہا ہے کیونکہ اس کا اسرائیل سے متعلق موقف جانبدار ہے۔ اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہالے کا کہنا ہے کہ امریکہ انسانی حقوق کونسل میں اپنے کردار پر غور کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ اسرائیل کے خلاف پانچ قراردادیں منظور کی گئیں لیکن کسی نے بھی وینزویلا کے بارے میں غور نہیں کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے لیے گذشتہ جمعے کو ایک تجزیے میں انھوں نے لکھا تھا کونسل کو اسرائیل کے خلاف تنقید کا عمل ختم کرنا ہو گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ کونسل نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا ریکارڈ رکھنے والے ایران پر اور حالیہ مہینوں میں سیاسی بحران اور اس کے دوران درجنوں مظاہرین کی ہلاکت پر وینزویلا پر کوئی تنقید نہیں کی۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو صرف تحقیقات کروانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے خلاف تنقید کا اختیار حاصل ہے تاہم اسے ایک اہم سفارتی حیثیت حاصل ہے۔
حالیہ مہینوں میں اس نے شمالی کوریا، ہیٹی اور میانمار سمیت دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے قراردایں منظور کیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے ماضی میں اس ادارے کو اسرائیل مخالف سرکس قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صرف مشرقِ وسطی میں جمہوریت پر حملے کرتا ہے جبکہ ایران، شام اور شمالی کوریا کو نظر انداز کر رہا ہے۔
2013 میں اسرائیل نے اس وقت ادارے کے ساتھ عملی تعلق ختم کر دیا تھا جب اس نے مغربی پٹی میں اسرائیل آباد کاری کی تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا۔ اسرائیل نے 50 سال پہلے جنگ کے بعد مغربی پٹی، مشرقی یروشلم اور شام میں گولان کی پہاڑیوں پر قبٰضہ کیا تھا۔
اقوامِ متحدہ غزہ کی پٹی کو بھی مقبوضہ فلسطین کا حصہ سمجھتا ہے جہاں 2005 کے بعد سے اسرائیل کی فوجیں موجود ہیں اور آبادکاری کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کونسل میں امریکہ کے اتحادیوں میں سعودی عرب شامل ہے جس پر خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں اور 2013 میں اس کی بحیثیت کونسل کے سربراہ ملک پر تنقید کی گئی تھی۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں