کرپشن پر دعائیں دینے والے لوگ

کرپشن پر دعائیں دینے والے لوگ

جرم کو گلیمرائز کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔ مہذب دنیا میں جرم ہر صورت جرم ہی ہوتا ہے۔ عدالتیں جذبات کے بجائے قانون کے مطابق فیصلے دیتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔یہ چہرے یا احساسات نہیں دیکھتا بلکہ انصاف دیکھتا ہے۔ ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہماری لوک داستانوں میں اس ڈاکو کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو امیروں کو لوٹ کر غریبوں کو راشن دیتے ہیں۔ یہ ڈاکو آج بھی موجود ہیں بس حلیہ بدل لیا ہے۔ ہم ہر اس ڈاکو کے لیے”آوے ہی آوے“کے نعرے لگاتے ہیں جو کرپشن کر کے بھلائی کرے یا بھلائی کے نام پر کرپشن کرے۔ لینڈ مافیا سے لے کر سیاسی اشرافیہ تک یہی صورت حال ہے۔ یہاں کئی لوگ اربوں لوٹ کر ہزاروں کا کھانا بانٹ کر خود پر ”خدا ترس“ کا ٹیگ لگواتے ہیں۔بدقسمتی سے سیاسی و سرکاری سطح پر بھی یہی کہانی دوہرائی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ہیلتھ کارڈ کے ہوش ربا سکینڈل سامنے آئے۔ پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر اور وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم بتا رہے تھے کہ کس طرح ہیلتھ کارڈ کی آڑ میں مافیا بنا اور اربوں روپے کمائے گئے۔ کس طرح نجی ہسپتالوں نے سو ارب تک کے بل بنا لیے۔ دنیا بھر میں حکومتیں سرکاری ہسپتالوں کو بہتر بناتی ہیں۔ ہم نے سرکاری فنڈ پرائیویٹ ہسپتالوں کو دینا شروع کر دیا۔ یہ سب اس طرح گلیمرائز کیا گیا کہ غریب لوگ اس کرپشن پر بھی دعائیں دینے لگے۔ ایک شخص جو20 سے 25 ہزارماہانہ کماتا ہے جب اسے بتایا جاتا تھا کہ اس کا 5لاکھ کا آپریشن مفت ہو گیا ہے تو یقینا وہ دعائیں ہی دے گا۔اسے کسی نے یہ بتایا ہی نہیں کہ یہ پانچ لاکھ کا آپریشن دراصل ایک لاکھ میں ہوتا ہے۔ اس کے نام پر چار لاکھ کی بس دیہاڑی لگ رہی ہے۔
ہم پہلے ہی اس بات کو رو رہے تھے کہ خواتین کے سی سیکشن کی ریشو بڑھ رہی ہے۔ سرکاری ہسپتال میں آپریشن انتہائی ضروری حالات میں کیا جاتا ہے لیکن اسی خاتون کو نجی ہسپتال لے جائیں تو فوراً آپریشن کر دیا جاتا ہے۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ نارمل کیس اور آپریشن کیس کی فیس اور اخراجات میں بہت فرق ہے۔ یہاں تو دل کے آپریشن بھی ایسے ہی کیے گئے ہیں جیسے سلاٹر ہاوس میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔عامر میر بتا رہے تھے نہ صرف یہ کہ غیر ضروری طور پر سٹنٹ ڈال کر بل بنائے گئے بلکہ یہ سٹنٹ بھی غیر معیاری ڈالے گئے۔ اب ہو یہ رہا تھا کہ ایک شخص دل کی تکلیف کے ساتھ ہسپتال پہنچا۔ اس کا علاج ڈرپ اور ادویات وغیرہ سے ممکن تھا لیکن مہذب اور پڑھے لکھے قصائیوں نے فوری طور پر سٹنٹ ڈالنے کا مشورہ دیا۔ ایسی صورت میں اہل خانہ پہلے ہی گھبرائے ہوئے ہیں۔ مزید مشورے کا تو وقت ہی نہیں ہوتا۔ دوسری جانب ہسپتال انتظامیہ
کہتی ہے کہ آپ بس شناختی کارڈ دیں اور فارم فل کریں۔ یہ آپریشن صحت کارڈ پر بالکل مفت ہو گا۔ غریب بندہ وہاں خوشی سے مر نہ جائے تو کیا کرے؟ یہی ہوا اور سٹنٹ ڈال دیا گیا۔ وہ غریب مڈل کلاس تو آج بھی صحت کارڈ کی تعریف کر رہا ہے اور دعائیں دے رہا ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اس کے اور ملک کے ساتھ دراصل ہوا کیا ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔
اس سارے کھیل میں مسیحا ہی قصائی بن گئے۔ آپریشنز کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ شاید عید پر اتائی قصائیوں کو اتنے بکرے نہیں ملتے جتنے ان ہسپتالوں میں سرجن کو مریض ملنے لگے۔آپریشنز تھیٹرز میں افراتفری کا منظرنظر آنے لگا۔سرجن چھری ٹوکہ لیے دھڑا دھڑا ”قربانی کے بکرے“ سٹریچر پر لٹا رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں کو بھی نجی ہسپتال جانے کی جلدی رہنے لگی کیونکہ اصل دیہاڑی وہاں لگنے لگی تھی۔ کئی ڈاکٹر مریضوں کو سرکاری سے نجی ہسپتال منتقل کرنے لگے کہ اس کا الگ کمیشن ملتا ہے۔ ایسے ایسے واقعات سامنے آنے لگے کہ دل ہل جاتا ہے۔ گزشتہ برس جون میں تھر کے علاقہ میں حاملہ خاتون کے بچے کا سر کاٹ دیا گیا۔ بچے کا باقی دھڑ دوسرے ہسپتال میں نکال کر خاتون کی جان بچائی گئی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں سکھر کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹروں نے نہ صرف 70 سالہ شخص کی دائیں ٹانگ کے بجائے بائیں ٹانگ کا آپریشن کر دیا بلکہ اس ٹھیک ٹانگ میں راڈ بھی ڈال دیا گیا جس سے وہ شخص معذور ہو گیا۔ اس سال جون میں فیصل آباد میں ایک خاتون کے پتے کا آپریشن کرنا تھا لیکن جب خاتون آپریشن تھیٹر سے باہر لائی گئی تو معلوم ہوا کہ پتا تو اپنی جگہ پر ہے البتہ ڈاکٹر اس کی ٹانگ کا آپریشن کر چکے ہیں جبکہ جس خاتون کی ٹانگ کا آپریشن ہونا تھا اس کا پتا نکال دیا گیا ہے۔ اسی طرح دیپال پور کے نجی ہسپتال میں تو ڈاکٹروں نے غریب شہری کو آپریشن کر کے نامرد کر دیا۔ صحت کارڈ پر نجی ہسپتالوں کو نوازنے کے بعد ایسے کئی واقعات سامنے آئے۔ نہ صرف یہ کہ غیر ضروری آپریشن کیے گئے، غیر ضروری طور پر دل کے سٹنٹ ڈالے گئے بلکہ اکثر مریضوں کی شکایت پر نجی ہسپتالوں نے لواحقین کے ساتھ بدمعاشی اور غنڈہ گردی بھی کی۔
صحت کارڈ کی سہولت پانے والے ان نجی ہسپتالوں کا سب سے آسان شکار مڈل کلاس لوگ ہیں جو مہنگے آپریشن کا سن کر پہلے پریشان ہوتے ہیں کہ لاکھوں روپے کہاں سے لائیں گے پھر یہ جان کر فوری مان جاتے ہیں کہ باہر سے یہ آپریشن کرائیں تو اتنے لاکھ لگیں گے لیکن یہاں یہ سب صحت کارڈ پر مفت ہو گا۔ اندازہ لگائیں کہ صحت کارڈ پر سب سے زیادہ آپریشن دل اور ڈلیوری کے کیے گئے۔دونوں آپریشن ایسے ہیں جس میں مریض کے لواحقین کو فوری فیصلہ کرنے کا کہا جاتا ہے۔ دونوں آپریشن میں ڈرایا جاتا ہے کہ لمحہ کی تاخیر بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ دونوں آپریشن ایسے ہیں جس میں تاخیر یا آپریشن نہ کرانے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ یہی جان سے جانے کا خوف اور فوری فیصلہ مافیا کا اصل ہتھیار بن گیا۔
حکومت نے اس پراجیکٹ پر چار سو ارب مختص کیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صحت اور مفت علاج پر 800 ارب بھی مختص کیے جائیں تو یہ قابل تعریف ہو گا لیکن یہ رقم مافیا کے بجائے عوام کے لیے ہونی چاہیے۔ سرکاری ہسپتالوں میں بہتری لائی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن اور علاج فری کیا جائے اور سہولیات مہیا کی جائیں۔ حکومت کا یہ فیصلہ بھی درست ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں اس سہولت پر آپریشن مفت ہو اور اگر کوئی نجی ہسپتال سے علاج کرانا چاہے تو اسے علاج میں ڈسکاونٹ دیا جائے جس میں 30 سے 50 فیصد خرچہ حکومت کرے اور باقی مریض خود کرے۔ اسی طرح میری تجویز ہے کہ جس ہسپتال میں مریض کا غلط آپریشن ہو یا علاج میں کوتاہی کی جائے تو وہاں قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ صحت کارڈ کی سہولت بھی بند کر دی جائے اور کی باقاعدہ تشہیر کی جائے کہ فلاں ہسپتال میں کس وجہ سے صحت کارڈ کی سہولت واپس لے لی گئی ہے۔ نجی ہسپتال حکومت کے پینل پر ہونے چاہیے نہ کہ حکومت ان نجی ہسپتالوں کی انتظامیہ کے پینل پر ہو۔ صرف کرپشن کا بتانا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بھی ضروری ہے۔ ابھی تک تو ”وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا“ والی صورت حال ہی نظر آتی ہے۔ دیہاڑیاں لگانے والے ارب پتی ہو چکے عوام مزید قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔