ہر ڈکیٹیٹر ضدی اور ہٹ دھرم تو ہوتا ہی ہے لیکن بزدلی اُس کی اضافی خوبی ہوتی ہے لیکن آخر کار عوامی مطالبات کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ڈکٹیٹروں کی یہی تاریخ ہے کہ جبر کی بنیاد پر حکمران رہے اوربزدلوں کی طرح عوامی مزاحمت کے آگے لگ کر دم دباکرجلا وطن ہو گئے یا پھر خود کشی اُن کا مقدرٹھہری ۔جو فلسفے ذہنوں کو منور کردیں انہیں جبر اور تشدد کے ذریعے تاریک نہیں جا سکتا ۔انقلاب ِ فرانس سے پہلے شاہ ِ فرانس نے بھی سات کے قریب اصلاحات متعارف کیںکہ کسی صورت اسکاتحت و تاج محفوظ رہ سکے لیکن انقلابی آخر اسکے محل میں داخل ہوگئے جس کے نتیجہ میں بادشاہ اورملکہ دونوں کو قتل ہونا پڑا۔ہٹلر ساری دنیا سے لڑنا چاہتا تھا لیکن اپنے اعصاب سے ہی شکست کھا گیا ۔شہنشاہ ایران جانے کا نام نہیں لے رہا تھا لیکن آخر کار بھاگتے ہی بنی۔ایوب خان میں غیرت موجود تھی اُس نے جلد ہی ہاتھ اٹھا دئیے ۔جنرل یحیی خان ملک دو ٹکرے کرانے کے بعد بھی اپنی گنجائش تلاش کرتا رہا مگر کسی نے ہاتھ نہیں پکڑا۔جنرل ضیاع الحق نے ہمیشہ عوام سے کہا کہ اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کر کے چلا جائوں گا لیکن جس دن اُس نے یہ کہا کہ ’’ میں جانے والا آدمی نہیں‘‘ چند دن بعد وہ دنیا سے چلا گیا۔انقلاب، آزادی اظہار،حقوق اور اس طرح کے دوسرے خوبصورت الفاظ سے سماج کے ہر انسان کا ڈائریکٹ تعلق نہیںہوتا ۔دنیا میں بسنے والی انسانوں کی بڑی اکثریت کی وطن پرستی، مذہب پرستی ،حقوق پرستی اورقوم پرستی کا تعلق اُن کے دل و دماغ سے نہیں معدے سے ہوتا ہے۔یہ تو چند سرپھرے ہوتے ہیں جو دنیا کے تمام انسانوں میں دکھ اور بھوک ، خوشی اور غمی یکساں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔پاکستانی حکمران جس کو ڈیموکریسی کہتے رہے عوام جان چکی کہ یہ ایجنٹوکریسی ہے ۔ہمارے صرف آقا بدلے ہیں طرز حکمرانی اور غلامی کی زنجیریں پرانی ہی ہیں۔موجود ہ حالات میں جمہوریت کا راگ الاپنے سے تو لوگوں کو لفظِ جمہوریت سے متنفرکرنے والی بات ہے۔ عوامی خواہشات کو کچلتی ہوئی جمہوریت، افلاس اور بھو ک کے ہاتھوں دم توڑتی جمہوریت، عدم تحفظ میں مبتلا عوامی جمہوریت، عوامی وقار کو گروی رکھنے والی جمہوریت، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کرنے والی جمہوریت، مذہبی منافرت پھیلانے والی جمہوریت، صوبہ پرستی کو ہوا دینے والی جمہوریت، طبقاتی نظام کو بڑھاوا دیتی جمہوریت، ہر موڑ پر معزز پاکستانیوں کی عزت نفس مجروع کرتی جمہوریت… یہ ہے تمہاری جمہوریت !دم توڑتی ،سسکیاں لیتی جمہوریت۔ جمہوریت اگر انسانوں کوزندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم نہیں کرسکتی تو لوگوں کو ایسے طرز حکومت کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے جس میں اُن کے پیارے اُن کے سامنے خودکشی کر لیں، جہاں غیر ملکی پاکستانیوں کو قتل کردیں اور جمہوریت یہ نہ طے کرپائے کے قاتل کا انجام کیا ہوگا۔جس ملک کے حکمرانوں کے اپنے اکائونٹس اور کاروبار پاکستان سے باہر ہوں اُن کا تو پاکستان سے کوئی تعلق نہیں بھلا جمہوریت سے کیا ہو گا؟ جہاں گوگیاں اورجادوگرنیاں اقتدار کے ایوانوں کو سحر زدہ کر کے رکھیں ٗ جہاں نیم پاگل انسان کو 22 کروڑ انسانوں کی ذمہ داری سونپ دی جائے ٗ جہاں غیر ملکی غیرمنتخب وزیر اورمشیرقوم کی تقدیر کا فیصلہ کریں ٗجہاں سیاستدان اپنے رشتے داروں سے پارلیمنٹ کا پنجرہ بڑھانا چاہیں ، جہاں بیورکریسی ملک کی خداوند بنی ہو،جہاں اسٹیبلشمنٹ جب چاہے اقتداربدل دے یا اپنے ہاتھوں میں لے لے وہاں جمہوریت کیسی اور جمہور کیسے؟
پاکستان کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم سانس تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں لے
رہے ہیں لیکن ہماری ذہنی بلوغت زرعی معاشرے کے انسان سے آگے نہیں بڑھی ۔ہم تو دنیا میں تہلکہ مچانے والے صنعتی انقلاب سے بھی مستفید نہیں ہو سکے۔شاید ہم آگے کے سفر سے خوف زدہ ہیں یا پھر ماضی کی طرف لوٹنے کے تمنائی ۔ہمارا پیدا ہونے والا بچہ جدید دنیا کے ساتھ چلنا چاہتا ہے لیکن ہم اُسے گھسیٹتے ہوئے ماضی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ہم ابھی تک کامیاب نہیںہوئے ۔ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر تم کسی بچے کی تربیت کرنا چاہتے ہوتو اُس کے دادا کی تربیت شروع کردو ۔سماجی ترقی کیلئے یہ سب سے اہم اور کارگر ہتھیار ہے لیکن ہم نے تو ابھی تک کچھ طے ہی نہیں کیاکہ ہم نے جانا کہاں ہے؟ جھوٹ اورفریب کی بنیاد پر صرف ایک دن کیلئے زندہ ہیں جیسے کل حیات کے ختم ہونے کے زندہ ثبوت ہمارے پاس ہوں۔ پاکستان سیاستدانوں کے نہیں سائنسدانوں کے ہاتھ میں رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ ایک تجربہ گاہ بن چکا ہے جہاں نیم پاگل اورفالج زدہ شحص بھی پاکستان کو چلاتے رہے ہیں۔پاکستان کے موجودہ حالات ایک دو دن میں خراب نہیں ہوئے نہ ہی کسی ایک حکومت ، فرد یا جماعت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتاہے۔یہ توبد اور برترین خارجی اور داخلی پالیسیوں کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔اگر اسے ارتقائی عمل میں ٹھیک کرنا ہے تو ہمیں اپنی پالیسیوں کے تسلسل کو درست کرنا ہوگا ۔اگر انقلاب کی کسی کوغلط فہمی ہے تو اُس کا امکان دور دور تک نہیں البتہ انارکی کسی وقت بھی شروع ہو سکتی ہے ۔ممکن ہے کسی دن رات کے پچھلے پہر شور کی آواز سنائی دے اور پھر کچھ بھی سنائی اور دکھائی نہ دے ۔
آمریت کا مطلب طاقت اورجبر کا لامحدود استعمال ہوتاہے ۔جس سے وقتی طور پر انسانوں کے کسی گروہ کو ریاستی قانون کی پاسداری کیلئے مجبور کیا جا سکتاہے۔حریت فکر پابند سلاسل بھی ہو سکتی ہے لیکن آزادی انسان کا پیدائشی اورفطرتی حق ہی نہیں بلکہ انسان کی اصل ہے اور ہر شے اپنے اصل کی طرف ہی لوٹتی ہے ۔یہاںصرف جماعتوں کے نام اورکردار بدل جاتے ہیں لیکن کہانی اورنتیجہ ایک ہی ہوتا ہے۔بپھرے ہوئے ہجوم صرف آمروں کے محلات میں ہی داخل نہیں ہوتے بلکہ یہ ہر اُس جگہ گھس جاتے ہیں جس کے بارے میں ان کو شک ہو کہ اِن کے بچوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کرنے والا یہاں چھپا ہوا ہے اورحیرت کی بات یہ ہے کہ اُن کے رستے میں کبھی کوئی دیوار نہیں آیا کرتی۔دوستی امریکی ہو یا چینی ٗ روسی ہو یا سعودی جسے اپنی مٹی دھتکار دے اُس کاکوئی وطن نہیں ہوتا ۔
عمران خان کی دانش کے بارے میں کوئی رائے نہیں رکھتا کہ میری رائے چیزوں کوپڑھنے ٗ دیکھنے اورمحسوس کرنے کے بعد بنتی ہے ۔البتہ عقیدے کے اعتبارسے وہ ایک قبائلی پختون مسلم کا اظہارکرتا ہے جبکہ رویے کے اعتبارسے وہ اپنے لئے مطلق العنانیت کے علاوہ اورکوئی اختیار نہیں چاہتا لیکن ایسی خواہش ہی جمہوریت کا قتل ہے ۔2018 ء میں عمران خان ایک صاف ستھرے سیاستدان کی حیثیت میں سامنے آیا جس کے ہاتھ میں عوامی خواہشات کی تکمیل کی ایک طویل فہرست تھی جوبدقسمتی سے ساڑھے تین سال بعد سائفر میں تبدیل کر کے عمران خان نے روتے ہوئے عوامی جلسے میں لہرا دی۔ پاکستان کی سیاست میں پہلی بارپنجاب ایک ایسے شخص کے سپرد کردیا گیا جسے تونسہ میں محلے کاپرچون فروش بھی ادھار نہیں دیتا تھا ۔ ٹی کے نامی پرنسپل سیکرٹری وزیراعلیٰ پنجاب کی کرپشن بارے وزیر اعظم باخبر ہونے کے باوجود اُسے ریلیف دیتے رہے کیونکہ تمام پوسٹینگز اورٹرنسفرارزفرخ گوگی کے کہنے پر یہ صاحب بہادر کرتے رہے ۔ خود عمران خان جیسا’’نیک نام‘‘ آدمی نوشہ خان سے نکل کرتوشہ خان سکینڈل کی زد میں آ گیا ۔ ایک طویل فہرست ہے کرپٹ اور بدیانت لوگوں کی پاکستان کے اداروںاورعام آدمی کے ہاتھوں میں ہے جو سابق حکومت کے خلاف عوامی ایف آئی آر ہے ۔احتجاجی سیاست بڑے موقف پر ہوتی ہے اوربلاشبہ آزادی سے بڑا موقف کوئی ہو نہیں سکتا لیکن عمران خان آزادی نہیں غلامی بدلنا چاہتا ہے وہ امریکی غلامی کے پاپولر سلوگن کو کیش کروا کر روسی اورچینی غلامی میں بدلنا چاہتا ہے۔ وہ کشکول توڑنا نہیں کشکول بڑا اور تبدیل کرنے کا خواہشمند ہے اورمیرے لئے تو لفظ غلامی ہی قابل ِ قبول نہیں۔