2 جولائی 2022 کو ایک بے بس ماں بیس سالہ انتظار کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی 1939میں اتر پردیش کے مشہور شہر بلند شہر میں پیدا ہوئیں، خاندان تحریک آزادی کا ہراول دستہ تھا، پاکستان بنا تو وہ خاندان سمیت کراچی منتقل ہو گئیں۔ والد بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے، نانا نے تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، سر سید گرلز کالج سے گریجوایشن کی اور ڈاکٹر صالح صدیقی سے رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئیں۔ اللہ نے انہیں ایک بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ پچھلے بیس سال سے وہ اپنی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے انتظار میں تھیں، بیس سالہ انتظار نے انہیں ضرورت سے زیادہ اور وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔ پچھلے بیس سال میں بر سراقتدار رہنے والے ہر حکمران اور سیاسی جماعت نے انہیں پریشان کیا، ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی، ان سے جھوٹے وعدے کیے، جھوٹی تسلیاں دیں اور عافیہ کی رہائی کے تمام آپشنز کو نظر انداز کر دیا۔ اسی غم سے وہ 2 جولائی 2022 کو اپنے رب کے حضور پیش ہو گئیں، ان کی خوش قسمتی دیکھئے کہ ان کی نماز جنازہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے پڑھائی، اللہ انہیں غریق رحمت اور سیئات سے درگزر فرمائے۔
عافیہ صدیقی کی والدہ تو چلی گئیں مگر میں آج ان کی موت کو گواہ بنا کر ایک دفعہ پھر عافیہ کا مقدمہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، میں اس مقدمے میں پوری قوم کو شامل کرنا چاہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم من حیث القوم اس مقدمے کے فریق ہیں۔ آپ اس مقدمے کے حقائق پر نظر دوڑائیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کیا ہم اس کیس سے خود کو الگ کر سکتے ہیں۔ اس کیس کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ 2003 میں عافیہ کی گرفتاری، گمشدگی اور 2010 میں سنائی جانے والی سزا کے بارے پاکستانی گورنمنٹ، میڈیا اور عوام نے کیا کیا، کیا عافیہ کیس کے حوالے سے گورنمنٹ، دفترِ خارجہ اور امریکہ میں موجود پاکستانی سفارت خانے نے اپنے فرائض ادا کیے؟ عافیہ کیس میں میڈیا کا کردار بھی بڑا مایوس کن تھا، مختاراں مائی، سوات میں کوڑے مارے جانے والی ویڈیو اور ملالہ کیس کو پوری قوت سے میڈیا پر اچھالا گیا۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے ان کیسز کو خصوصی کوریج دی اور کئی کئی مہینے تک یہ کیسز میڈیا میں ’’ان‘‘
رہے مگر عافیہ کیس میں میڈیا نے عافیت کی چادر اوڑھ لی۔ کیا عافیہ کا کیس پاکستان کا کیس نہیں تھا اور کیا عافیہ پاکستان کی بہن اور بیٹی نہیں تھی؟ عافیہ کے کیس میں عوام کی بے حسی اور غفلت بھی مایوس کن تھی، آزاد اور جمہوری ممالک میں دس دس لاکھ لوگ ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس کے گرد اکٹھے ہو کر حکمرانوں کو فیصلوں پر مجبور کر دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں مفاد پرستی، خود غرضی اور عافیت پسندی کا رواج ہے اور ہم من حیث القوم مفاد پرستی، بے ضمیری اور بے حسی کی چادر اوڑھ کر سوئے ہوئے ہیں اور اس وقت تک سوئے رہتے ہیں جب تک دشمن کے ہاتھ ہمارے گریبانوں تک نہیں پہنچ جاتے۔ دشمن ہمیں کوڑے مارتا ہے ہم دو منٹ کے لیے اٹھتے ہیں اور دوبارہ سو جاتے ہیں، دشمن یہ کھیل گزشتہ 75سال سے کھیل رہا ہے مگر ہماری مستقل مزاجی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہم اپنے مفادات کے لیے بار بار اکٹھے ہوتے رہے، ہم نے ملین مارچ بھی کیے اور لانگ مارچ بھی، ہم نے ایک ایک لاکھ افراد کے جلسے بھی کیے اور پچاس پچاس ہزار افراد کی ریلیاں بھی نکالی، ہم نے لوڈشیڈنگ کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور پٹرول مہنگا ہونے پر بھی سڑکوں پر نکل آئے، ہم نے گیس کی قلت کے خلاف بھی مظاہرے کیے اور الیکشن کے سلسلے میں منعقدہ جلسوں میں بھی بڑے جوش و خروش سے شامل ہوتے رہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عافیہ کے لیے بھی کبھی ہم اکٹھے ہوئے؟ کیا ہم نے عافیہ کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کیا؟ گورنمنٹ سے لے کر میڈیا تک، انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر این جی اوز تک، مذہبی سکالرز سے لے کر بیورو کریسی تک، جماعت اسلامی سے لے کر جے یو آئی تک، پی پی سے لے کر ن لیگ تک، مذہبی جماعتوں سے لے کر دینی مدارس تک، ججوں سے لے کر وکلا تک، سول سوسائٹی سے لے کر کالج اور یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس تک کس نے کیا کیا؟ کیا کسی کے پاس اس ’’کیا‘‘ کا جواب ہے؟ کیا عافیہ کا کیس پاکستان کا کیس نہیں تھا اور کیا عافیہ پاکستان کی بیٹی نہیںتھی۔ ملالہ کو ملنے کے لیے لندن جانے والے حکمرانوں، سیاستدانوں، اینکروں اور کالم نگاروں کو امریکی جیل میں سلاخوں کے پیچھے بیٹھی عافیہ صدیقی کیوںدکھائی نہیں دیتی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک خود غرض، بے حس اور لاپروا قوم ہیں، ہم نے ہمیشہ اپنے محسنوں کے ساتھ یہی کیا، قائد اعظم سے لے کر ڈاکٹر عبد القدیر خان تک ہماری بے حسی کی طویل داستان پھیلی ہوئی ہے۔ ہندوستان سے مسلم اقتدار کے زوال کے ساتھ ہماری قومیت کا جنازہ بھی نکل گیا تھا اور بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ ہم کسی بھی ایشو پر گھنٹہ گھنٹہ تبصرے کر لیتے ہیں مگر جب عملی قدم اٹھانے کی باری آتی ہے تو ہم بنی اسرائیل کی طرح کہتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) تم لڑو اور تمہارا خدا ہم واپس جا رہے ہیں۔ ہمارے قول و فعل میں ایک سو ایک فیصد تضاد ہے، ہم نے من حیث القوم عافیہ کے ساتھ بھی یہی کیا، ہم نے عافیہ کی مظلومیت کے قصے بڑے دردِ دل کے ساتھ سنے اور سنائے، ہم نے عافیہ پر ہونے والے ظلم و تشدد کو مہینوں ضرب المثل بنائے رکھا مگر عملی طور پر کسی نے کچھ نہ کیا۔ آپ گوگل پہ عافیہ موومنٹ پہ جائیں آپ کو ہر چھوٹے بڑے سیاسی لیڈر، مذہبی راہنما اور سماجی شخصیات کی طرف سے مذمت کاریوں کی ایک لمبی فہرست دکھائی دے گی مگر ان لیڈروں اور راہنماؤں کی سرگرمیاں صرف بیان بازی تک محدودر ہیں اور عملی طور پرکسی نے کچھ نہیں کیا۔ اب تو یہ ہمارا سماجی رویہ بن چکا ہے ہم کسی بھی ایشو پر لمبے چوڑے تبصرے کرتے ہیں، حکومت اور امریکہ پر تنقید کرتے ہیں اور جب عملی قدم اٹھانے کی باری آتی ہے ہم بے حسی کی چادر اوڑھ کر سو جاتے ہیں۔
گزشتہ بیس سال میں یہاں ملالہ، شرمین عبید اور مختاراں مائی جیسے کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا مگر عافیہ جیسی پاکستان کی مظلو م بیٹیوں کو نظر انداز کیا گیا، آج بھی اس سماج کی ہیروز فلموں اور ٹی وی ڈراموں کی اداکارائیں اور سوشل میڈیا سٹارز ہیں، جو جتنا عریاں لباس پہنتی اور جسم کی نمائش کرتی ہے وہ سماج میں اتنی زیادہ مقبول ہے۔ اگرچہ اس دنیا میں شہرت، عزت اور قابلیت کا معیار یہی ہے مگر عنقریب ایک نئی دنیا آباد ہونے والی ہے، اس دنیا میں سب کھرا کھوٹا واضح ہو جائے گا، اس دنیا کے معیارات الگ ہوں گے اور اس روز کی ہیروز عافیہ صدیقی جیسے مظلوم اور ستم رسیدہ بیٹیاں ہوں گی۔ ایک بے بس ماں بیس سال سے مظلوم بیٹی سے ملنے کی آس لیے بیٹھی رہی مگر یہ بے حس سماج اس کی آواز نہیں سن سکا، اب یہ ماں اس ہستی کے حضور پیش ہو چکی ہے جو کسی مظلوم کی دعا کو رد نہیں کرتا۔