’’ہندو مسلم اتحاد‘‘آر ایس ایس سربراہ کے بیان پر نئی بحث چھڑ گئی

07:04 PM, 6 Jul, 2021

نئی دہلی: بھارت کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آ رایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور مسلمانوں کے ساتھ اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے بیان کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

غیر ملکی میڈیاک ے مطابق بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرست سمجھی جانے والی جماعت کے رہنما کا یہ بیان ملک میں مبینہ طور پر بی جے پی کی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ہے،بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت کا یہ بیان خوش آئند ہے اور اس سے اقلیتوں کے تحفظات دُور ہو سکتے ہیں۔ 

 نئی دہلی میں ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے موہن بھاگوت نے ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے قیام پر زور دیا اور کہا کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں ہندووں کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے نہ ظالموں کی ۔ مذکورہ تقریب کا اہتمام  آر ایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ موہن بھاگوت کا کہنا تھا کہ ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کے بجائے بات چیت سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ ان کے بقول ملک کی ترقی ہندو مسلم اتحاد کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

 ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذہب سے قطع نظر سب کا 'ڈی این اے' ایک ہے، ہم سب کے اسلاف ایک ہی تھے۔ عبادت کے مختلف طریقوں کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ موہن بھاگوت نے گائے کے تحفظ کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے واقعات پر کہا کہ گائے ہمارے لیے مقدس ہے لیکن اس کے نام پر کسی کی جان نہیں لی جا سکتی۔ 

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ اس ملک میں مسلمان نہیں رہ سکتے تو وہ ہندو نہیں ہے۔ 'آر ایس ایس' کے سربراہ نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اس خوف سے باہر آئیں کہ بھارت میں اسلام خطرے میں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قوم پرستی اتحاد کی بنیاد ہونی چاہیے۔ موہن بھاگوت نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ وہ جو کچھ کہنے جا رہے ہیں اسے سیاسی تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ وہ اس پروگرام میں نہ تو امیج بنانے کے لیے شریک ہو رہے ہیں اور نہ ہی اس کا ووٹ بینک کی سیاست سے کوئی تعلق ہے۔

موہن بھاگوت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ 'آر ایس ایس' سیاست میں نہیں ہے اور اسے اپنی ساکھ کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کی یہ تقریر مبینہ طور پر مودی حکومت کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینے کے لیے تھی۔

مزیدخبریں