بیدل ایک طرف انسان کی عظمت، اس کے شرف اور اس کی غیر معمولی قوتِ تسخیر سے آگاہ ہیں تو دوسری طرف انسانوں کے مابین مراتب کے فرق کا بھی گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اپنے اس موقف کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں کہ ہْما اور الّو دونوں پرندے ہیں اور دونو مشتِ پر کی حقیر مگر مشترک متاع رکھتے ہیں لیکن دونوں میں گہرا فرق ہے۔ ایک خالص معنی ہے، دوسرا محض صورت۔ یہی وہ فرق ہے جو اقبال نے شاہین اور کرگس کے مابین متعین کیا تھا: پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں - کرگس کا جہا ں اور ہے شاہیں کا جہاں اور۔ بیدل نے اسی فرق کو بڑے لطیف پیرائے میں اپنی حیران کن کتاب "چہار عنصر" میں بھی ایک جگہ بیان کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک دن بلبل نے اپنی ہم نوا سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ اس باغ (باغِ دنیا) کی فضا کو کوؤں نے اپنی بھدی اور بے ہنگم آوازوں سے مکدّر کر رکھا ہے۔ کیا کیا جائے؟ ہم نوا نے جواباً کہا: "گفت خاموش زاغ بسیار است"۔ خاموش رہ، اس بد جنس سے پورا عالم پْرخروش ہے اور کان اس کی ہرزہ گوئی سے اٹ گئے ہیں مگر صبر کے سوا چارہ نہیں۔ غور کیا جائے تو یہ بے بسی کا نہیں، حقیقت پسندی کا سبق ہے۔ اگر کائنات کی اس اٹل صورت ِ حال کو نظر انداز کر دیا جائے تو زندگی گزارنا محال ہو جائے اور زندگی کے بارے میں بیدل نے کس اعتماد اور تیقن سے کہہ رکھا ہے: گراں شد زندگی امّا نمی افتد زِ دوشِ من (مجھ پر زندگی بھاری تو بہت ہے مگر میں اپنے کاندھوں سے اسے گرنے نہیں دیتا!)۔
زندگی اور جیتے جاگتے انسانوں سے بیدل کا یہی اٹوٹ تعلق ہے جو اسے ہلکا اور بے وزن نہیں ہونے دیتا لہٰذا اپنے زمانے کی طرح ان کی فکر کا توانا سرا خود ہمارے زمانے سے آملتا ہے۔ بڑی فکر کا یہی کمال ہے کہ وہ ہر عہد کی معاصرت سے ہم رشتہ ہونے کا جوہر رکھتی ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ بیدل صوفیِ صافی اور عارف باللہ تھے مگران میں ایک قلندر نے بھی اپنی جگہ بنا رکھی تھی چنانچہ ریش اور سبلت سے بے نیاز تھے گویا چار ابرو کا صفایا کر رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ایک ظاہر پرست منصب دار سے ان کی مڈھ بھیڑ ہوئی۔ کسی سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: بیدل۔ بیدل؟ وہ تو ایک برگزیدہ فقیر ہے اور یہ صفا چٹ حلیے والا؟ بیدل جواباً کہہ اٹھے: ریش و بروتِ خویش تراشیدہ ایم ما/ لیکن دلِ کسے نہ خراشیدہ ایم ما (ہم نے اپنی داڑھی مونچھ تو ضرورتراش رکھی ہے مگر ہم نے کسی کے دل پر خراش نہیں آنے دی!)۔
مال و منصبِ دنیا سے اسی بے نیازی کے باعث بیدل کسی کا احسان اٹھانا گوارا نہیں کرتے۔ ایک امیر نے نقد مال دینا چاہا۔ فرمایا، میں غریب آدمی ہوں، اتنی بڑی رقم کی حفاظت کیوں کر کروں گا۔ اپنے پاس ہی رکھیے۔ مال و جاہ سے ایسی ہی بے التفاتی جرأت اور حق گوئی کا داعیہ پیدا کرتی ہے۔ بیدل اس کی ایک زندہ مثال تھے۔ جو لوگ مغلوں کے مْوخّر عہد سے آگاہ ہیں، جانتے ہیں کہ
مغل دربار میں سادات بارہہ نے کس قدر لرزہ انگیز قوت حاصل کر رکھی تھی۔ لوگ انہیں بادشاہ گر کہتے تھے۔ یہ بیدل کی عزت کرتے تھے مگر جب مغل بادشاہ فرخ سیر اْن بیدردوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترا تو بیدل نے وہ مشہورِ زمانہ رباعی کہی جس کا ایک مصرع یہ ہے: سادات بہ وَے نمکحرامی کردند۔
بیدل کوانسان اور اس کے مخفی امکانات نیز اس کی نفسیات کا نہایت گہرا ادراک حاصل تھا۔ بیدل کے متخصص ڈاکٹر عبدالغنی نے کسی مبالغے سے کام نہیں لیا جب انہوں نے کہا کہ علم الانسان سے متعلق بیدل نے وہ حقائق بیان کیے ہیں کہ در حقیقت مغربی مفکر ان کی گردِ پا کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔
بیدل جس طرح زندگی اور اس کے حوادث کو ایک حساس مفکر کے طور پر دیکھتے ہیں، اسی طرح زندگی کی سنگین ترین حقیقت یعنی موت کا بھی گہرا فلسفیانہ ادراک رکھتے ہیں۔ دیگر صوفیا کی طرح بیدل کے نزدیک بھی ذاتِ حق کے سو ا کائنات کی ہر شے بے اعتباری ہے۔ کائنات اسمائے الٰہیہ اور اس کی صفات کی مظہر ہے۔ انسان ذاتِ حق کے اسمِ جامع کا مظہر ہے۔ چنانچہ بیدل کا موقف یہ تھا کہ خود کائنات محض ایک خیال ہے لہٰذا کسی کے رحلت کرنے پر غمزدہ ہونا کیا معنی۔ کیوں کہ رحلت کر جانے والا بھی ایک خیالِ محض ہی تو تھا- اور ا س کا وجود اعتباری! کائنات کے بارے میں بیدل نے یہ بھی تو کہہ رکھا ہے: ہر نقشے کہ می بینی حرفے است کہ می شنوی (ہر نقش/تصویر جو تو دیکھتا ہے، محض ایک حرف ہے جو تو سنتا ہے!)۔
موت کا مذکورہ بالا فلسفہ اپنی جگہ مگر زندگی کے سنگین حقائق سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ بیدل بے اولاد رہے، بڑھاپے میں اللہ نے ایک بیٹا ارزانی کیا تھا مگر وہ بھی چار برس کی عمر میں رخصت ہو گیا۔ بیدل نے اس کا نہایت موثّر مرثیہ لکھا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: ہیہات! مجھ پر کیا چمکتی بجلی گری گویا میری روح نے قیامت کا آشوب جھیلا۔ مجھ میں جو تاب و تواں تھی، چلی گئی۔ اس کہنہ دھرتی سے میرا بچہ رخصت ہو گیا۔ بس کھیلتے کھیلتے اس نے اچانک آسمان کا رخ کر لیا/ وہ جب میرے ہمراہ ٹہلتا تھا تو میری انگلی تھامے رہتا تھا، گویا یہ انگلی اس (ناتواں بچے) کے لیے عصا کا کام دیتی تھی! خدا معلوم اس کے اندر اپنی ذات کا کیا احساس جاگا کہ اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے اٹھالیا۔ آخر میرے بغیر اس نے عدم کا یہ طول طویل اور دشوار رستہ کیسے طے کیا؟
بیدل کی نظم و نثر کے آثار ایک بحرِ زخار ہیں۔ اس سے موتی رولنے کے لیے کم از کم ایک عمر تو ناکافی ہے۔ دوسری کا کیا امکان۔ انہوں نے ذاتِ حق اور اس کے نامکشوف اسرار کے بارے میں بھی بے تکان لکھا۔ ایک جگہ اسے "گوہر نایاب سراغ کہا ہے جو ایک ایسے سمندر میں گم ہے جس کی تھا ہ نہیں۔ اس ذات کا ادراک تو خیر کیا ہوگا، اس کا صرف عکس ہوش کے شیشے (آئینے) میں نظر آیا مگر اسے ایک ایسا پھول کہا جا سکتا ہے جسے چھْوا اور چْنا نہیں جا سکتا (قمر جمیل کا مصرع یاد آتا ہے: آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے!) گویا ذاتِ حق ایک ایسا نسخہ ہے جو بغل میں ہے مگر اس کا فہم محال ہے یا پھر اس کی حیثیت اس جلوے کی ہے جو آنکھ میں تو ہے مگر اسے دیکھیں کیسے!" واہ ری انسانی نارسائی۔ میں اپنی آنکھ سے سب کچھ دیکھتا ہوں مگر اس سے اپنی ہی آنکھ نہیں دیکھ سکتا! پھر بھی انساں ہے فاعل مختار (یگانہ)
ممتاز ایرانی فاضل ڈاکٹر شفیعی کدکنی نے بیدل کے بارے میں کس قدر درست لکھا تھا کہ " بیدل ایک ایسا ملک ہے جس کا ویزا آسانی سے ہاتھ نہیں آتا اور ہر شخص اس میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی خوش قسمت کو اس کا ویزا مل جائے تو وہ اس میں دائمی قیام پر اصرار ضرورکرے گا۔" بیدل نے کیسا نادر نکتہ بیان کیا تھا جب انہوں نے کہا تھا: دانا صرف صوت و صدا کا سہارا نہیں لیتا۔ وہ اکثر اشارات و ادا کا وسیلہ اختیار کرتا ہے۔ ہزاروں باتیں تالو اور زبان ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ آخر آئینہ تمہارے روبرو کیا کیا کچھ کہہ جاتا ہے۔ میرے نزدیک آئینہ کسی کے روبرو بہت کچھ کہہ کر بھی تو بس اتنا ہی کہہ سکتا ہے: دیکھو کسی غلط فہمی میں نہ رہنا۔ تم مجھ میں اپناآپ نہیں دیکھ رہے، محض اپنا عکس دیکھ رہے ہو اور عکس و ظل اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے!