مقننہ+ عدلیہ + انتظامیہ = (حکومت) ریاست کی جامع تعریف ہے۔ یونیفارم فورسز قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں۔ دفاع بذات خود ایک مربوط اور ذمہ دار ادارہ ہے۔ ریاست کی تعریف کے بعد جتنے بھی ادارے ہیں سب حکومت، عدلیہ، انتظامیہ کے زیر انتظام ہوا کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں میڈیاکو عوام کی حقیقی آواز کے طو ر پر جزوی اعتبار سے ریاستی عناصر میں شمار کیا جاتا ہے اگروہ مثبت رائے عامہ کو اجاگر کرے۔ پارلیمنٹ (مقننہ) معتبر ترین ادارہ جبکہ آئین معتبر ترین دستاویز ہے۔ سیاسی جماعتیں، خود مختار ادارے، نجی ادارے سب کے سب جب ایک مربوط نظام کے تحت کام کرتے ہیں تو اس کو وسیع معنوں میں فلاحی یا عوام دوست ریاست کہتے ہیں جو قابل تحسین معاشرت کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ ریاست کے فرد کے ساتھ Contract معاہدہ دراصل ریاست کی اساس ہے جب یہ ٹوٹتا ہے تو پھر ملک ٹوٹتے ہیں پھر کوئی ادارہ اس کو بندوق یا قلم کو کرپان بنا کر ریاست کے تابع نہیں رکھ سکتا۔ سختی، ظلم اور لاقانونیت قدر ت کے منطقی نظام کو دعوت دیتے ہیں۔ قدرت اپنا نظام چلانے میں کسی کی محتاج ہے نہ لحاظ رکھتی ہے اور جب اس کا نظام حرکت میں آتا ہے تو حکومتیں دھول دھوئیں کی طرح اڑ جاتی ہیں۔ حکومتیں کیا مملکتیں زمیں بوس ہو جایا کرتی ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جغرافیہ ریاست کا سب سے کمزور ترین عنصر ثابت ہوا ہے۔ اگر ریاست اور فرد کا معاہدہ کمزور پڑ جائے یا ٹوٹ جائے۔
اب ہمارے ہاں ریاست کے اندر کئی ریاستیں، اداروں کے اندر ادارے، اجارہ داری کے اندر اجارہ داریاں، فرقوں کے اندر فرقے، دھڑوں کے اندر دھڑے، حکومت کے اندر حکومتیں، عدلیہ کے اندر عدلیہ، انتظامیہ کے اندر انتظامیہ، مافیا کے اندر مافیاز، کوئی مسجد، مندر، کلیسا، درگاہ اس روگ سے مبرا نہیں رہی۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جماعتیں گویا کوئی ایک ایک شعبہ ایسا نہیں جو بظاہر شعبہ نظر آئے مگر خود شعبہ جات میں بٹا ہوا نہ ہو۔ بیورو کریسی والے اپنے آپ کو Rider of the Nation کہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ رائیڈر تو ہیں مگر سواری ایک لاغر قوم پر کر رہے ہیں۔ دوسرے رینکر کلاس ان کے سامنے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں آگے عوام ان کے سامنے کیڑے مکوڑے ہیں۔ سرمایہ دار کے سامنے سفید پوش اور سفید پوش کے سامنے غریب کی یہی حیثیت ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آئین کی دستاویز کوبالائے طاق رکھ کر حکومت سازی ہو گی۔ قانون سازی ہو گی، بیان بازی ہو گی تو پھر یہ معاشرت تہذیب، تمدن اور آئین کے تحت چلنے والی معاشرت نہیں کہلا سکے گی۔ کسی بھی سرکاری یا نجی محکمہ کو دیکھ لیں اس میں موج اور گلشن کا کاروبار چند ویلنٹائن ہی چلاتے ہیں۔
یہ لوگ اپنے ہی ہم عہدہ لوگوں کی مخبریاں اور اعلیٰ افسران کی ہر قسم کی ضروریات کی سپلائی کا اہتمام کرتے ہیں۔ میاں دو پیادہ اور چوہدری ویلنٹائن کی اصطلاحیں بطور استعارہ ہیں۔یہ ہر شعبے، ادارے اور ریاست کے ستون میں موجود ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی سرکاری محکمہ میں ماتحت افسران یا ملازمین کی معطلی کی فائل نکلوا لیں اور تحقیق کریں نوے فیصد کسی نہ کسی اعلیٰ افسر جو بقول مقصود احمد بٹ (روزنامہ جنگ) فرعون سے بچھڑے لشکر کی نسل سے ہیں کی ناراضی ہو گی۔ کلرک اپنی سیٹ پر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ نظر آئے گا۔ ماتحت عدلیہ میں ریڈر کی اپنی بادشاہی ہے۔ اردلی سے لے کر صدر تک سپاہی سے لے کر وزیراعظم تک کسی قاعدے کلیے نہیں اپنے مزاج کے مطابق طرز عمل میں مبتلا ہے۔ ذمہ داری ہماری قوت ہے اور یہ چند سالہ قوت ہم اپنا حق سمجھتے ہیں غرضیکہ کسی کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے قانون، آئین، دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں۔ بس! ایک سفارش یا کسی فرعون کا سفر جاری رکھے ہوئے اعلیٰ آفیسر، سیاسی قوت، حکمران طبقے سے ہونا چاہیے بس پھر لوگ نازیوں اور تاتاریوں کی یلغار بھول جائیں گے۔
مسئلہ یہ ہے آئین کدھر ہے۔دراصل یہاں سیاسی تجزیہ کار نہیں نفسیاتی الجھنوں کے ماہرین کی ضرورت ہے۔ حالیہ انٹرویو کون کر رہا ہے اور کلائمکس پر ایک سوال جو پوچھنا اور جواب جو دینا سکرپٹڈ تھا وہ تھا امریکی اڈے کی ڈیمانڈ اور اس پر Absolutely Not بس!
پیسے پورے ہو گئے بعد ازاں لوگ ڈھونڈتے رہے کہ امریکہ نے اڈے کہاں مانگے ہیں؟ یہ کب ہو ا وہ تو الٹا بگرام اڈہ خالی کر گیا جس کے خالی کرنے سے ہماری ٹانگیں وجود کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوئے دے رہی ہیں۔ جس طرح NRO نہیں دیں گے تواپوزیشن ایک دوسرے کو دیکھتی ہے اسی طرح یورپی یونین یا کسی اور کو سنانے والا بیان ہے جس سے امریکی تاحال واقف نہیں ہیں۔
دراصل! امریکہ کے چلے جانے سے جو صورت حال پیدا ہو گی وہ جونیجو کے جنیوا معاہدے جس میں روسی فوجوں کے انخلا کا قصہ مکمل ہوا تھا، ایسی صورت حال کا اندیشہ ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم اپوزیشن کے ساتھ بات نہ کرے اور اگر چوری چکاری اور کرپشن کی بات ہے تو وہ حکومتی بنچوں میں انہی جماعتوں کے سرخیل بیٹھے ہیں یہ سب کھوکھلے نعرے ہیں اور زمینی حقائق سے فرار نہیں مکاری سے بدل کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔ پنجاب نئے دور میں داخل ہو گیا ”معیشت بہتر ہو گئی“ قانون کی عمل داری قائم ہے، یہ سب کدھر ہے۔ آج کسی کو کوئی کام ہو تو وہ نہیں جانتا کہ یہ کام کس نے کرنا ہے اس کا دکھ کس نے دور کرنا ہے۔ آئینی اور انتظامی عہدوں پر ڈمی بیٹھے ہیں لوگ پھر اگلا سوال کرتے ہیں کہ کس کی بات میں دم ہو سکتا ہے۔ کوئی جواب نہیں۔ کوئی وزیراعظم ہاؤس، کوئی بنی گالہ، کوئی راولپنڈی اور کوئی آب پارہ سٹاپ پر منت کرنے کی بات کرے گا گویا آئین، قانون کی بات کہیں نہیں ہو گی۔ دوسری جانب کسی ادارے، کسی شعبے۔ کسی بھی جگہ چلے جائیں وہی صورت حال ہے جو اوپر بیان کر دی کہ اداروں کے اندر ادارے، ریاست کے اندر ریاستیں، اجارہ داری کے اندر اجارہ داریاں ہیں۔ اس دور میں بیورو کریسی کی پانچوں گھی میں اور عوام کا سر کڑاہی میں ہے۔ ذمہ دارو! اللہ کا خوف کھاؤ! فرد ریاست سے نالاں ہے، فرد کمزور ہے، معاہدہ ٹوٹ چکا ہے، عمل درآمد کے لے قدرت کی قوت کے حرکت میں آنے کا منتظر ہے۔ صرف ایک ادارہ ہے جو مربوط ہے منظم ہے اور مضبوط بھی پاکستان آرمی ورنہ اس حکومت کی پالتو لاڈیوں کی وجہ سے قائداعظم کا باقی آدھا احسان بھی اتار چکے ہوتے مگر اس نے اس ادارے کو جان بوجھ کر استعمال کیا۔ ایک پیج ایک پیج کی رٹ لگائی بلاشبہ پیج پر رہو گے تو بساط پہ ہو گے مشکل صرف اتنی ہے کہ کوئی دوسرا مانتا نہیں اور یہ کہتے ہیں ہمارے علاوہ چوائس نہیں بہرحال بات کہیں اور نکل گئی۔ نصرت فتح علی خان کو شہرت یہ دلواتے ہیں جس سوال کا جواب پوچھیں سابقہ حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ (مارشل لاء) نکال کر اور انہی ادوار کے اور حکومتوں میں شامل ”عظیم ہستیاں“ ان کی کابینہ میں کچھ دہری شخصیت اور دہری قومیت رکھنے والے شامل ہیں۔ بعض اوقات ان کی حالت پر رحم آتا ہے اس۔ واقعہ پر ختم کرتا ہوں۔ ایک سکھ اپنی 12/10فٹ کی بالائی منزل پر بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ بالکنی پرانے زمانے کی طرح باہر کو بڑی ہوئی تھی جس پر کرسی میز بھی آسانی سے آسکتی اور بازار کا نظارہ کیا جا سکتا۔ تین منزلوں کا گھر سردار صاحب فسٹ فلور پر تھے اپنے معمول کے نشے میں تھے کہ اٹھ کر ذرا انگڑائی لی اور حلوائی کو نمک پارے کے لیے آواز دی کہ دھڑام سے سڑک پر آ گرے۔ چلتے بازار میں لوگ ارد گرد ہو لیے کہ سردار جی کی ہویا، سردارجی کی ہویا (صاحب کیا ہوا) سردارصاحب ان کو دیکھ کر کہتا ہے پتہ نئیں میں تے آپ ہن آیا واں (پتہ نہیں میں تو خود ابھی آیا ہوں) لوگ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، غربت، افلاس، بیماری،لاچارگیوں کی بات کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ہم تو ابھی آئے ہیں اور دوسری طرف ان کے دعوے پڑھ کر لگتا ہے۔ آسٹریلیا یا چائنہ کی ترقی کی بات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ٹھیک کہا ہے۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا۔ یہ ریاستوں کے اندر ریاستیں ہونے کا نتیجہ ہے۔