ایک شیخ کاروبار کے سلسلے میں بیرون ملک گیا۔وہاں سے واپسی پر اپنے سازوسامان کے ساتھ بحری راستہ اختیار کیا۔بحری جہاز جب سمندر کے عین وسط میں پہنچا تو تیزو تند طوفانی لہروں نے جہاز کو آلیا۔جہاز کے کپتان (کرکٹ کے کپتان نے نہیں) نے شیخ صاحب سے کہا کہ اللہ سے گریہ زاری کریں، صدقِ دل سے گناہوں کی معافی مانگیں اور کوئی مَنت مانگیں کہ جہاز کنارے جا لگے ورنہ جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔اس صورت حال میں کنارے لگنا ممکنات میں سے نہیں اور ہم لہروں کے بیچوں بیچ موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے۔ یہ سنتے ہی شیخ صاحب اللہ کے حضور سر بسجود ہوگئے اور گڑگڑا کر امن و شانتی کی دعا مانگنے لگے۔دعا و التجا کے بعد سلامتی کے لیے نیاز کے طور پر ایک دیگ کی مَنت بھی مان لی۔ کچھ دیر بعد طوفان تھم گیا۔جہاز اپنی سمت کو چل پڑا اور شیخ صاحب کی جان میں جان آئی۔جہاز ابھی کنارے سے کچھ فاصلے پر تھا۔کپتان (جہاز کے کپتان) نے پوچھا شیخ صاحب دیگ کب دی جائے گی۔شیخ صاحب بولے کونسی دیگ……؟شیخ کا اتنا کہنا ہی تھاکہ لہروں نے (شیخ صاحب کی یو ٹرن والی کیفیت) کو بھانپ کر پھر انگڑائی لی اور سمندر میں ہلچل مچا دی۔شیخ صاحب موسم کی نیت بھانپ کرگھبراکر فوراً گویا ہوئے۔اللہ میاں آپ تو جلد ناراض ہو جاتے ہیں۔کونسی دیگ سے مراد میرا مطلب یہ تھا کہ میٹھی دیگ یا نمکین دیگ۔
شیخ ڈاکٹر محمد انیس ماہر تعلیم اور منجھے ہوئے منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست بھی ہیں۔پہلوانوں کا شہر گوجرانوالہ آپ کا مرزبوم ہے۔آپ معرکہ پاک و ہندو سے ایک سال قبل اسی شہر میں پیدا ہوئے۔آپ نے 1982ء میں گورنمنٹ تعمیر ہائی سکول سے میٹرک کرنے بعد 1984ء میں گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف۔ایس۔سی پری انجینئرنگ اور 1988ء میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد آپ ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی(پنجاب یونیورسٹی)میں داخلِ درس رہے۔1988ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس میتھ کرنے کے بعد گوجرانوالہ کے ہی ایک پرائیویٹ سکول (البدر سکول)میں بطور استاد کے اپنی عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔چار سال کی درس و تدریس کے بعد 1993ء میں آپ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ایس ایس ٹی سائنس منتخب ہو گئے اور آپ کا پہلا تقرر گورنمنٹ فخراسلام ہائی سکول وزیر آباد میں ہوا۔ٹھیک 8ماہ بعد قسمت نے ایک بار پھر یاوری کی اور پھر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سبجیکٹ سپیشلسٹ منتخب ہو کر گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ڈومیلی (جہلم)جا بسے۔ آپ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کی تلاش میں سر گرداں ہو گئے۔آپ نے 2000ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل میتھ کیا اور 2005ء میں ایرڈ یونیورسٹی موجودہ پیر مہر علی شاہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی میتھ کی ڈگری حاصل کی۔14سال بطور سینئر سبجیکٹ کی سروس کے بعد آپ 2007ء میں ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد منتخب ہوگئے۔شو میئ قسمت سے آپ کا پہلا تقرر آپ کے اپنے شہر گوجرانوالہ ہی ہو گیا۔آپ نے اپنی بھرپور کوششوں سے گوجرانوالہ کے ریجنل کیمپس کے لیے شہری حلقے میں جگہ خریدی۔ آپ نے کیمپس کے پلان اور نقشہ جات کی تیاری اور دیگر معاملات میں بھرپور معاونت کی۔کیمپس کی تعمیر سے قبل پروانہ آ پہنچا اور آپ کا تبادلہ اسلام آباد ہیڈ کواٹر ہو گیا۔کچھ عرصہ بعد آپ کو ریجنل ڈائریکٹر میر پور آزاد کشمیر لگا دیا گیا۔ چند سال بعد آپ پھر واپس گوجرانوالہ کیمپس آگئے۔ گوجرانوالہ 9 تحصیلوں پر مشتمل ڈویژن ہے۔آپ نے ہر تحصیل کو ہر لحاظ سے ٹرانسپیرنٹ کیا اور یونیورسٹی کی انرولمنٹ میں حیران کن اضافہ کیا۔اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے اور آپ کا تبادلہ بطور ریجنل ڈائریکٹر شہرِ مجید امجد ساہیوال ہو گیا۔ ساہیوال آتے ہی آپ نے کیمپس کے لیے دو ایکٹر زمین بعوض 4کروڑ(معاوضہ ہیڈ آفس نے ادا کیا) کے لبِ جی ٹی روڈ خریدی جو طالب علموں کی اپروچ میں ہے۔ ساہیوال ڈویژن اس وقت 7تحصیلوں پر مشتمل ہے۔آپ نے یونیورسٹی کی انرولمنٹ کے لیے انتھک منت کی۔آپ نے مین ٹو مین ملاقاتیں کیں اور عوام کو یونیورسٹی ہذا کی ترجیحات سے آگاہ کیا۔آپ نے ڈویژن ہذا کے تمام سکولوں اور کالجز کا وزٹ کیا اور غریب بچوں کو روز گار کے ساتھ ساتھ تعلیم کی اہمیت و افادیت سے بھی آگاہ کیا اور یونیورسٹی ہذا میں داخلے کی ترغیب دی۔جب آپ ساہیوال ریجن میں تشریف لائے تو اس وقت اس ریجن میں 28000 طالب علم اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔آپ کی شبانہ روز محنت سے اس وقت 42000 طالب علم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ساہیوال ریجن میں زیورتعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو رہے ہیں۔آپ نے طالب علموں کی سہولتوں کے لیے ہر تحصیل میں ”سہولت سنٹر“بنا دیئے تاکہ طالب علم اپنی اسائنمنٹس ڈاؤن لوڈ کر سکیں۔
آپ نے غریب اور یتیم بچوں کی معاونت کے لیے سپورٹس فنڈ سے فیس معافی کے لیے انتظامات کیے اور بچوں کے لیے تعلیمی وظائف کا بندوبست کیا۔آپ نے امتحانات اور دیگر معاملات کو شفاف اور ٹرانسپیرنٹ بنانے کے لیے ایماندار اور فرض شناس لوگوں کا انتخاب کیا اور کرپٹ اور غیر ذمہ دار لوگوں کا قلع قمع کیا۔آپ نے آن لائن نظام کو بہتر بنانے اور کمپیوٹر سے غیر مانوس طالب علموں کی مدد کے فری ٹیوٹر مہیا کیے۔آپ اس سلسلے میں اداروں کے سربراہان سے ملے اور طالب علموں کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے مختلف طریقوں کو متعارف کرانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔آپ کی ان کوششوں،جدوجہد اور تعلیم سے محبت اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ انسان ہمت کرے تو بڑے سے بڑا پہاڑ کو سر کرنا اور دودھ کی نہر نکالنا اس کے لیے کوئی مشکل عمل نہیں۔اللہ آپ کو اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مزید حوصلہ اور استقامت عطا کرے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ترویج میں شیخ محمد انیس کا کردار
11:22 AM, 6 Jul, 2021