اسلام آباد :پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ میں مکمل طور پر احتساب کے حق میں ہوں مگریہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو، اگر آپ نے احتساب کرنا ہے تو اس کا طریقہ ہے اور اگر آپ نے انتقام لینا ہے تو پھر نیب ہے۔ موجودہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، موجودہ حکومت کا ایک، ایک لمحہ پاکستان پر بھاری ہے یہ ناکام ہو چکی ہے، ختم ہو چکی ہے اس سے بہتری کی توقع نہیں ہے۔
ہم کسی غیر جمہوری عمل کا حصہ نہیں اور نہ بننا چاہیئے ہم نے پاکستان میں بہت مار کھائی ہے۔حکومت اپنی اکثریت کھو چکی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ آج حکومت کے پاس اکثریت ہے، اتحادی چھوڑ گئے تو بالکل ختم ہوجائے گی اس کے بعد وزیر اعظم کے پاس دو راستے ہوں گے یا کسی دوسری جماعت کو حکومت بنانے کا موقع دیں یا اسمبلی تحلیل کر دیں۔
تحریک عدم اعتماد لانا آخری آپشن ہے اور جس طرح کی پاکستان میں میکینکس ہیں اور جس طرح اس پر عملدرآمد ہوتا ہے یہ تقریباً ایک ناممکن اقدام ہوتا ہے۔حکومت خود اپنا تختہ الٹنے کے لئے تیار ہے اور خود کوشش کر رہی ہے۔ حکومت ناکام ہو چکی ہے، معیشت تباہ ہو چکی ہے ، ملکی ترقی رک چکی ہے، ملک میں فیصلے نہیں ہورہے ، حکومت نااہل ہے اور کرپشن کے اسکینڈل پر اسکینڈل آرہے ہیں اور کسی کے پاس جواب ہے نہیں۔ موجودہ حکومت کی ناکامی سے یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ ہمیں نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ جو حکومت ہو ہم اس کی کشمیر پالیسی سے مطمعن ہیں،کشمیر ایک مسئلہ ہے جس پر پاکستان میں کوئی تقسیم نہیں ہے تاہم موجودہ حکومت نے اس مسئلہ پر بھی تقسیم پیدا کردی ہے اور اس نے اپنی سوچ اور فیصلوں میں اپوزیشن کو شامل نہیں رکھا۔
کشمیر کا مسئلہ ہو، نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہو ، دفاع کا مسئلہ ہو، ابھی کورونا آیا ہے ان پر کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اپوزیشن کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کا ایک آئین ہے اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہمیں ملک چلانے کے لئے اس آئین میں ترمیم کرنی ہے تو باتیں نہ کرے اور ترمیمی بل لے کر آجائے کہ فلاں ، فلاں شق کو تبدیل کرنا چاہیئے اس سے ملک کی بہتری ہو گی ہم ساتھ ہیں ۔
شاہد خاقان عباسی کاکہنا تھا کہ حکومت دوہفتے کوشش کرتی رہی اور عشائیے دیئے اور بجٹ میں اسے 160 ووٹ پڑے، حکومت کو چاہیئے تھا کہ 172 ووٹوں کی اکثریت ثابت کرتی تاہم وہ ایسا نہیں کر سکی۔ میں نے پہلی دفعہ زندگی میں دیکھا ہے کہ ہر آدمی اپوزیشن پر نظر لگائے بیٹھا ہے کہ یہ کچھ ڈلیور کریں گے اور ہمارے مسائل حل کریں گے۔اگر اپوزیشن نے بجٹ پر ووٹننگ کے لئے تیاری کی ہوتی تو ہمارے حق میں 140ووٹ پڑتے۔ میاں محمد نواز شریف نے زندگی میں کبھی کرپشن نہیں کی تو پھر وہ کسی کو کوئی پیسے کیوں اداکریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاست روایات کا نام ہے، آئین ہر ملک میں ہوتا ہے ، ہمارا بھی بنا ہوا آئین ، بہت اچھا آئین ہے، بڑا تفصیلی آئین ہے اور اتفاق رائے سے بنا تھا لیکن ہم اس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں، ہم نے سیاست کو پنپنے نہیں دیا اس وجہ سے جن حالات کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں وہ ہیں۔ دنیا میں مارکیٹ بیسڈ معیشتیں ہیں اور اب حکومت کو صرف ایک پیمانے پر ناپا یا تولا جاتا ہے وہ معیشت ہے، اگر معیشت کامیاب ہے تو روزگار بھی ہو گا، ملک میں کاروبار بھی ہو گا اور ملک میں ترقی بھی ہو گی اور اسی پر لوگ بھی تولتے ہیں اور دنیا بھی تولتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک تروتھ کمیشن بنا دیں اور اس کو تاریخ کے لئے ڈاکیومینٹ کر دیں کہ اس ملک میں کیا کچھ ہوتا رہا، غلطیاں سب کی ہیں کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، اب کسی نے سزا کیا دینی ہے ان سے سبق حاصل کریں، بہت سے ممالک نے یہ کیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن کا کوئی رکن حکومتی کارکردگی سے خوش ہے تو پھر اس کا ایک طریقہ ہے کہ وہ جس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا ہے اس سے استعفیٰ دے کر جس پارٹی سے خوش ہیں اس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر واپس ایوان میں آجائیں ۔ جن لوگوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی ہے ان کے خلاف تادیبی کاروائی ہونی چاہیئے اور انہیں پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔
(ن)لیگ میں کوئی مریم نواز یا شہباز شریف کیمپ نہیں ایسا قطعاً ممکن ہی نہیں میں خواجہ آصف سب ایک پیج پر ہیں، اختلاف رائے ہر روز ہوتا ہے اور ہر ایشو پر ہوتا ہے تاہم اختلاف کوئی نہیں ہے۔ ہماری پارٹی کے صدر میاں محمد شہباز شریف ہیں اور اگر پارٹی دوبارہ حکومت میں آتی ہے تو وہ فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے خود وزیر اعظم بننا ہے یا کسی اور کو بنانا ہے۔
نواز شریف نے کس مقصد کے لئے ڈیل کرنی ہے، نواز شریف وی آدمی ہیں جو باہر تھا اور یہاں پر ان کو سزا ہوئی جو آج ثابت ہو گئی کہ غلط تھی وہ لندن سے اپنی بیٹی کے ساتھ واپس آیا اور جیل چلا گیا، اس نے اگر کوئی ڈیل کرنی ہوتی تو اس وقت کرتا۔ نواز شریف اپنا علاج باہر کروارہے ہیں یہ مریض کی مرضی ہے جہاں مرضی اپنا علاج کروائے، یہ ان کا حق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوروناوائرس کا ایک ہی علاج ہے کہ لوگوں کو آپس میں ملنے سے روکیں اسی سے انفیکشن ریٹ کم ہو گا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ آج تک وفاقی حکومت اور وزیر اعظم اپنے منہ سے نہیں کہہ سکا کہ لاک ڈائون ہونا چاہیئے، وزیر اعظم آج تک نہیں بتا سکے ان کی پالیسی کیا ہے اگر انہوں نے آج تک لاک کیا نہیں تو پھر انہوں نے اس میں نرمی کیسے کر دی، نرمی کس چیز میں کی جس کا وجود ہی نہیں۔ کوروناوائرس کی ٹیسٹنگ کی شرح 30ہزار تک گئی اور اب واپس 20ہزار پر آگئی ہے، حکومت کو آج 60ہزار سے ایک لاکھ ٹیسٹ روزانہ کرنے چاہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک 18ویں ترمیم کی بات ہے اس کا کوئی وجود نہیں وہ ملک کے آئین کا حصہ بن گئی ہے اس کے بعد بھی ترامیم ہوئی ہیں اور یہ ترامیم 24یا25تک پہنچ گئی ہیں، ملک کا ایک آئین ہے اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہمیں ملک چلانے کے لئے اس آئین میں ترمیم کرنی ہے تو باتیں نہ کرے اور ترمیمی بل لے کر آجائے کہ فلاں ، فلاں شق کو تبدیل کرنا چاہیئے اس سے ملک کی بہتری ہو گی ہم ساتھ ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ میں سب سے بڑا حامی ہوں کہ حکومت کو اپنا وقت پورا کرنا چاہیئے ، میں اس نظریے کا حامی ہوں کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنا چاہیں۔