ایون فیلڈ ریفرنس، نواز شریف کو 10 اور مریم کو 7 سال قید کی سزا

03:45 PM, 6 Jul, 2018

Read more!

اسلام آباد: ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید بامشقت ، مریم نواز کو 7 سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو 1 سال  قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ 

احتساب عدالت نے نوازشریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی کیا ہے جب کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو سرکاری تحویل میں لینے کا بھی حکم دیاہے۔مریم نواز کو جھوٹی دستاویز جمع کرانے پر بھی ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

مریم نواز لاہور کے حلقہ این اے 127 اور پی پی 137 جب کہ کیپٹن (ر) صفدر این اے 14 مانسہرہ سے امیدوار تھے جو اب الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے ملزمان کے فیصلوں سے متعلق میڈیا کو آگاہ کیا اور مزید بتایا کہ حسین نواز اور حسن نواز عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان سے متعلق سزا نہیں سنائی گئی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کو سزا ہو اور پیسے بھی واپس آئیں، فواد چوہدری

اس سے قبل عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ ساڑھے 12 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا، تاہم پھر اس فیصلے کو پہلے ڈھائی بجے پھر 3 بجے تک اس کے بعد ساڑھے تین بجے فیصلہ سنانے کا وقت دیا گیا۔ایک بار پھر احستاب عدالت کے جج کی جانب سے بتایا گیا کہ فیصلہ سنانے میں 30 سے 40 منٹ لگ سکتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز لندن میں موجودگی کی وجہ سے آج پیش نہیں ہوئے اور وہ یہ فیصلہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں ہی سنیں گے، جبکہ نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر مانسہرہ میں موجودگی کی وجہ سے عدالت نہیں آئے، جہاں وہ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

آج صبح 9 بجکر 40 منٹ پر جب سماعت کا آغاز ہوا تو سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن میں زیر علاج اہلیہ کلثوم نواز کی تازہ میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ بیگم کلثوم نواز کی حالت تشویشناک ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق آئندہ 48 گھنٹے فیملی کا کلثوم نواز کے ساتھ ہونا ضروری ہے، لہذا فیصلے کو کچھ دن کے لیے موخر کردیا جائے۔

تاہم نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے فیصلہ موخر کرنے کی درخواست کی مخالفت کر دی۔

جس کے بعد جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت11 بجے تک کے لیے موخر کردی۔

یہ بھی پڑھیںنواز شریف کو سزا ہو اور پیسے بھی واپس آئیں، فواد چوہدری
 

بعدازاں عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ آج ساڑھے 12 بجے سنایا جائے گا، جسے پھر ڈھائی اور بعدازاں 3 بجے تک کے لیے موخر کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 3 جولائی کو شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے سنانے کے لیے 6 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی۔

گزشتہ روز نواز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل ظافر خان کے توسط سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ مؤخر کرنے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ وہ اس ٹرائل کا حصہ رہے ہیں اور مسلسل عدالت آتے رہے لیکن اچانک صورتحال تبدیل ہوئی اور ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی طبعیت شدید خراب ہو گئی۔

درخواست میں کہا گیا کہ ڈاکٹرز نے کلثوم نواز کی طبعیت میں بہتری تک واپس نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔

نواز شریف کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مجبوری کے باعث وہ 6 جولائی کو پاکستان نہیں آ سکتے جیسے ہی ان کی اہلیہ کی طبعیت بہتر ہو گی وہ پاکستان آئیں گے لہٰذا کچھ دن کے لیے فیصلہ مؤخر کیا جائے۔

ایون فیلڈ ریفرنس، کب، کیسے اور کیا ہوا؟

لندن کے پوش علاقے ’مے فیئر‘میں ارب پتی افراد کے گھر ہیں اس علاقے میں واقع ایون فیلڈ فلیٹس نواز شریف کے بچوں کے نام ہیں۔

ملک کے سیاسی منظر نامے میں اس جائیداد کی گونج نوے کی دہائی سے سنی جارہی ہے لیکن نواز شریف اور ان کا خاندان اس کی مسلسل تردید کرتا رہا۔ 2016 میں پاناما لیکس کے بعد نواز شریف کے خاندان سمیت ہزاروں لوگوں کی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات سامنے آئیں، جس کے بعد معاملہ احتجاج کے بعد سپریم کورٹ میں گیا۔ جولائی 2017 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا جس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔

8 ستمبر 2017 کو نیب نے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف، ان کے تینوں بچوں اور داماد کے خلاف عبوری ریفرنس دائر کیا۔

19 اکتوبر 2017 کو مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر براہ راست جب کہ نواز شریف پر ان کے نمائندے ظافر خان کے ذریعے فردِ جرم عائد کی گئی۔ نیب نے مزید شواہد ملنے پر 22 جنوری 2018 کو اسی معاملے میں ضمنی ریفرنس دائر کیا۔

نواز شریف پہلی بار 26 ستمبر 2017 جب کہ مریم نواز 9 اکتوبر کو عدالت کے روبرو پیش ہوئیں۔ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری ہونے کے باعث ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے عدالت پیش کیا گیا۔ عدالت نے 26 اکتوبر کو مسلسل عدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

3 نومبر کو پہلی بار نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے۔ 8 نومبر کو پیشی کے موقع پر نواز شریف پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔

10 جون کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نےاحتساب عدالت کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کی مدت سماعت میں تیسری مرتبہ توسیع کی درخواست پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف زیرسماعت تینوں ریفرنسز کا ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا۔

11 جون 2018 کو حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کیس سے الگ ہو گئے جس کے بعد ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کرایا۔ 19 جون کو خواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اور دستبرداری کی درخواست واپس لے لی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 9 ماہ 20 دن تک ریفرنس کی سماعت کی اور 3 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا۔ اس دوران مجموعی طور پر 18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔

 

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

مزیدخبریں