اسلام آباد : کسی کو غیر قانونی نہیں اٹھایا جائے گا،وفاقی حکومت بیان حلفی دے، سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔تحریری حکم میں کہا گیاہے کہ وفاقی حکومت حلف دے کہ کسی شخص کو بھی غیرقانونی طور پر نہیں اٹھایا جائے گا، پولیس کو بھی پُرامن بلوچ مظاہرین سے ناروا سلوک کرنے سے روک دیا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پُرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، نوٹس میں آیا کہ پولیس نے عدالتی چھٹیوں کے دوران بلوچ مظاہرین پر تشدد کیا، عدالت پُرامن مظاہرین پر کسی بھی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دیتی۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ عدالت فیض آباد دھرنا فیصلے میں پُرامن احتجاج کا حق واضح کرچکی، سپریم کورٹ کے حکمنامے میں سینیٹ سے لاپتہ افراد بل گم ہونے کا بھی ذکر کیا گیا۔حکم نامہ میں کہا گیاہےلاپتہ افراد کمیشن دس روز میں اپنے کوائف سے متعلق تفصیلات اٹارنی جنرل کو جمع کرائے۔ اٹارنی جنرل لاپتہ افراد کمیشن سے رپورٹ آ جانے کے بعد حتمی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ کیس کی سماعت عدالت کی طلب کردہ دستاویزات جمع کرانے کے بعد ہو گی۔
سپریم کورٹ کا حکمنامہ میں کہا گیاہے اعتزاز احسن کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے عائد اعتراضات ختم کیے جاتے ہیں۔ اعتزاز احسن کی درخواست پر عدالت صرف لاپتہ افراد تک محدود رہے گی۔اعتزاز احسن کی درخواست میں سیاسی وابستگی رکھنے اور واپس آ جانے والوں کے معاملے کو عدالت نہیں دیکھے گی ۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں چار رکنی لاپتہ افراد کمیشن 2011 سے قائم ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ اور دیگر فریقین نے لاپتہ افراد کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔رجسٹرار کمیشن خالد نسیم نے بتایا کہ کمیشن کی کوششوں سے بہت سے لاپتہ افراد بازیاب ہوئے۔
وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کمیشن کے کئی پروڈکشن آرڈرز نظر انداز کیے گئے ہیں،فیصل صدیقی کو عدالت لاپتہ افراد کیس میں معاون مقرر کرتی ہے۔سینیٹ سے لاپتہ افراد بل گم ہونے کا بھی حکمنامے میں ذکر ہے۔کہا گیاہے کہ الزام ہے کہ ایک وفاقی وزیر کی کوششوں کو اسی پارٹی کے ووٹوں سے منتخب سینیٹ چیئرمین نے ناکام بنایا۔
عدالت نے کہا ہے یہ بہت سنگین الزام ہے جو صادق سنجرانی پر لگایا گیا ہے۔حکم نامہ میں واضح کیا گیاہے کہ صادق سنجرانی کو اس کیس میں درخواست گزار نے فریق نہیں بنایا،۔جب تک درخواست گزار انہیں فریق نہیں بناتے ان الزامات کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا۔