اسلام آباد: سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ جیسے بھی ہوں بس 8 فروری کو ہر حال میں انتخابات ہونے چائیں، انہوں نے کہا بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے پاکستان میں بہترین آمریت ایک اچھا آپشن نہیں ہے بد ترین جمہوریت ہی ٹھیک ہے، اگر دھاندلی زدہ الیکشن ہوتا ہے تو بھی ٹھیک ہے ہونے دیں۔
نجی چینل کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ 8 فروری کے الیکشن پر کوئی ابہام نہیں ہو نا چاہیے، ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تھا ملک میں 8 فروری کو الیکشن ہونا پتھر پر لکیر ہے، اگر یہ انتخابات نہ ہوئے تو پھر آئندہ چیف جسٹس کی بات پر کوئی یقین نہیں کرےگا.
ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں انتخابات کی التوا کے حوالے سے قرارداد منظور ہوئی میں اتفاق سے ادھر ہی تھا اور اس کو سینیٹ کی اکثریت نےمنظور نہیں کیا، مولانا فضل الرحمان کے تحفظات اپنی جگہ سینیٹر دلاور خان اور ہدایت اللہ خان کے اپنے معملات ہیں لیکن پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف چاہتی ہیں کہ انتخابات8 فروری کو ہی ہوں۔
حامد میر نے کہا کہ 8 فروری کو الیکشن ہونے چاہئیں جو کہہ رہے کہ ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہت خراب ہے تو 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن کے دن کوئٹہ میں دھماکہ ہو ا تھا پھر بھی انتخابات ہوئے۔ اگر 8 فروری کو انتخابات نہ ہوئے تو اس کا مطلب ہو گا کہ پاکستان جو کہ نیوکلیئر سٹیٹ ہے اس نے مٹھی بھر دہشت گردوں کے سامنے سرینڈر کر دیا۔
ان کاکہناتھا کہ پاکستان میں کوئی بھی الیکشن فری اینڈ فیئر نہیں ہوا تو یہ الیکشن 8 فروری کے بجائے 8 اپریل، 8 سمبر یا نومبر کو کرائیں وہ بھی فری اینڈ فیئر نہیں ہو گا، جو لوگ اب انتخابات ملتوی کرانا چاہ رہے وہ کبھی بھی الیکشن کرانے ہی نہیں چاہتے۔
انہوں نے کہا اب تک بہت مشکلات آئیں، تحریک انصاف کا راستہ روکنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا گیا، امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے لیکن جب الیکشن ٹربیونل میں بات گئی تو 95 فیصد فیصلے امیدواروں کے حق میں اور آر اوز کے مخالف آئے، آئندہ بھی بہت مشکلات آئیں گی، اگر الیکشن کمیشن نے آر اوز کے ذریعے ایک پارٹی کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو جوڈیشری نے ان کو ریلیف بھی دیا۔
حامد میر نے کہا کہ لیکن اگر 8 فروری کو الیکشن نہیں ہوئے تو پھر مزید مشکلات آئیں گی اور بہت لوگ باہر ہو جائیں گے کیونکہ جو لوگ الیکشن ملتوی کرانے چاہتے ہیں وہ ابھی کسی نہ کسی کا راستہ روکنا ہی چاہتے ہیں۔ جہاں سے ریلیف مل رہا وہ ریلیف روکنے کی کوشش کی جائے گی۔
تو یہ الیکشن جیسا بھی ہو الیکشن ہو جانا چاہیے، انہوں نے کہا بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے پاکستان میں بہترین آمریت ایک اچھا آپشن نہیں ہے بد ترین جمہوریت ہی ٹھیک ہے، اگر دھاندلی زدہ الیکشن ہوتا ہے تو بھی ٹھیک ہے ہونے دیں۔
انہوں نے کہا پی ڈی ایم کے دور حکومت میں قومی اسلبلی نے اظہار رائے کی آزادی اور ہیومن رائٹس پر بدترین پابندیاں لگانے کے بل منظور کیے، ہماری مخالفت پر ہم پر الزام تراشیاں کی گئیں، ہم نے مقابلہ کر لیا۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت آئی، شہباز شریف کی آئی یا اب آئندہ جو لاڈلی حکومت ہو گی یہ سیاسی ہی ہو گی، ہم پر بغاوت کے مقدمے کرائیں ہمیں گرفتار کریں ہم لڑ لیں گے لیکن اگر 8 فروری کو الیکشن نہیں ہوئے تو جو پھر ہو گا نا ملک میں تو ہمارا یہ آپس میں ایسے بات کرنا، آزادی رائے رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ تو کرپٹ، کمزور،بدترین یا جیسی بھی ہو جمہوریت ہو بس، اگر 8 فروری کو الیکشن نہ ہو اتوایسا گندہ اور دھاندلی زدہ الیکشن بھی نہیں ہو گا پھر تمام ٹی وی چینلز پر بغیر پولنگ کے نتائج کا اعلان کیا جائے گا اور ہمیں وہ قبول کرنا پڑے گا۔
سینئر صحافی نے کہا مجھے معلوم ہے جن سینیٹر صاحبان نے سینیٹ میں انتخابات التوا کی قرارداد پیش کی اور اس کی حمایت کی وہ کون لوگ ہیں، وہ کیسے سینیٹر بنے اور کس کے اشارے پر وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، وہ بہت طاقتور لوگ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جن سینیٹرز نے قرارداد پیش کی انہوں نے مجھے بتایا کہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی چاہتے ہیں کہ 8 فروری کو الیکشنز نہ ہوں، لیکن میرے پاس پکی خبر ہے کہ نگراں وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ الیکشن 8 فروری کو ہوں۔ اگر نگران وزیر اعظم ایسا چاہتے تو ملک میں الیکشن ہونا چاہیے کیونکہ جنہوں نے قرارداد پیش کی اور منظور کی وہ نگران وزیر اعظم سے زیادہ طاقتور لوگ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا ہمیشہ موقف رہا کہ 90 دن میں الیکشن ہوں لیکن اگر اب بھی الیکشن نہ ہوا تو پاکستان کے کسی ادراے کی کوئی ساکھ نہیں رہے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ8 فروری کے الیکشن میں پاکستان کی بڑی پارٹی تحریک انصاف کے کچھ نہ کچھ امیدواروں کو اس میں حصہ ملنے کا موقع مل جائے گا لیکن اگر 8 فروری سے ملتوی ہوتے تو سمجھ لیں کہ تحریک انصاف کا راستہ بالکل ختم ہو جائےگا، وہ حصہ نہیں لے سکے گی۔
حامد میر نے کہا کہ جنہوں نے قرارداد منظورکرائی ان کے مخالف ملک کی تین پارٹیاں ایک پیچ پر آگئیں۔ جب قومی اسمبلی تحلیل ہوئی، پنجاب اور کے پی اسمبلی تحلیل ہوئی تب صرف پی ٹی آئی چاہتی تھی 90 دن میں الیکشن ہوں اور آج دو بڑی پارٹیوں کا موقف کھل کے سامنے ہے کہ 8 فروری کو الیکشن ہوں لیکن ن لیگ کی بڑی قیادت کی جانب سے کوئی موقف نہیں آیا۔
سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ سینیٹر افنان اللہ نے سینیٹ میں الیکشن التوا کی مخالفت کی لیکن سینئر قیادت کی جانب سے ان کی پوزیشن کو پارٹی موقف کہہ کر اس کی تائید نہیں لیکن تردیدی بھی نہیں کی گئی، شہباز شریف صرف خاموش ہیں کیونکہ وہ کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے یہ ہم بھی جانتے ہیں۔جس پر میزبان کامران خان نے کہا کہ تائید یا تردید سے واضح نہیں کر سکتے کہ جو افنان اللہ کا موقف ہے وہ ہی نواز یا شہباز شریف کا ہو، اگر ایسا ہوتا تو الیکشن ملتوی ہونے کا اضطراب یا پریشانی کی کوئی جھلک نظر آ جاتی ن لیگ کی سینئر قیادت کی جانب سے، جس پر حامد میر کا کہنا تھا کہ افنان اللہ جب تقریر کر رہے تھے تو اسحاق ڈار موجود تھے تو میرا یہی موقف ہے کہ افنان اللہ کی بات پی ن لیگ کی حمایت ہے۔