بھارت نے سات دہائیوں سے کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی کے بعد جموں میں سالہا سال سے مقیم مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی منصوبندی کرلی ہے۔بھارتی انتظامیہ نے جموں میں کئی برس پہلے بسائے گئے مسلمانوں کے گھر تباہ کرنے کا نوٹس جاری کیا ہے۔
جموں کی بستی’بشیر گجر‘ میں کشمیری مسلمانوں کے 200 سے زائد گھر آباد ہیں۔ وادی بھر سے ہزاروں مسلمان کشمیری فوج کی درندگی اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں سے تنگ آکر یہاں منتقل ہوئے تھے۔مذکورہ بستی کے مکینوں کو بذریعہ نوٹس مطلع کیا گیا ہے کہ گھر خالی نہ کرنے کی صورت میں گرا دیے جائیں گے۔گھر خالی کرانے کا نوٹس بھارتی بی جے پی حکومت کی اس مذموم کوشش کا حصہ سمجھا جارہا ہے جس کے تحت وہ جموں سے کشمیریوں کا انخلا چاہتی ہے۔
بھارت میں عموماً مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے ماورائے عدالت اقدام ہوتے رہے ہیں، جہاں ان کے گھروں کو متعدد بار مسمار کیا جا چکا ہے۔ تاہم کشمیر میں یہ ایک نیا رجحان ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے ضلع اننت ناگ میں پہلگام علاقے کے لوار گاؤں میں بلڈوزر کی مدد سے ایک منزلہ عمارت کو منہدم کر دیا۔ جس عمارت کو منہدم کیا گیا وہ مبینہ طور پر تنظیم حزب المجاہدین کے ایک کمانڈر عامر خان کا مکان تھا۔ عامر خان کا اصلی نام غلام نبی ہے جو فی الوقت عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے اعلیٰ آپریشنل کمانڈر ہیں۔ وہ 90 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر منتقل ہو گئے تھے۔بھارت میں مرکزی اور ریاستی ہندو قوم پرست حکومتیں اکثر، سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیرات کا حوالہ دیتے ہوئے، عمارتوں پر بلڈوزر چلانے کا حکم دیتی ہیں اور اس کارروائی کے لیے عدالت پر مبنی انصاف کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔
جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ نریندر مودی کی بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے کے مسلم تشخص کو ختم کرنے پر تلی ہے۔ انہیں علاقے کی مسلم شناخت کی سب سے بڑی نمائندہ علامت جامع مسجد سری نگر کے منبر سے زبردستی دور رکھا جا رہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے ضلع سانبہ کے کئی دیہات میں محاصرے اورتلاشی کی کارروائیاں کیں۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک طرح کا یہ ایک نیا سلوک ہے۔ کشمیر میں تصادم کے دوران ان کے گھروں کو جلانے اور منہدم کرنے کا چلن پرانا ہے، تاہم اب بلڈوزر سے ان کے مکانوں کو نشانہ بنانے کا ایک نیا رجحان شروع ہوا ہے۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی جائیدادوں کو کسی نہ کسی بہانے ضبط کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ مودی حکومت کشمیریوں کو حق پر مبنی جدوجہد سے دستبردار کرانے کیلئے انکی جائیدادیں ضبط کر رہی ہے۔ نریندر مودی کی ہندو توا حکومت نے اسرائیلی ہتھکنڈے کی نقل کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط اور تباہ کر نے کی مہم شروع کر دی ہیں تاکہ ان پر حق خودارادیت کے حصول کیلئے جاری جائز جدوجہد ترک کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جا سکے۔ کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرنا سیاسی انتقام،مقصد تحریک آزادی سے دستبردار کرنا ہے۔ متنازع قانون یو اے پی اے کے تحت سرینگر میں مزید 5 کشمیریوں کے مکان ضبط کر لیے ہیں
ایک رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ مقبوضہ علاقے کے حکام نے کل پلوامہ ضلع کے علاقے کھریو میں ایک بے گناہ کشمیری شخص غلام احمد نجارکے ایک مکان کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت ضبط کر لیاجبکہ قابض بھارتی حکام نے حال ہی میں مقبوضہ علاقے میں جماعت اسلامی کی 90 کروڑ بھارتی روپے مالیت کی 11 جائیدادیں ضبط کیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرنا مودی کی ہندوتوا حکومت کی سراسر سیاسی انتقامی کارروائی ہے۔ کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کے علاوہ قابض بھارتی فوج محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران انکے مکانوں کو دھماکہ خیز مواد کے ذریعے تباہ کر رہی ہے۔
آر ایس ایس کی حمایت یافتہ مودی حکومت کشمیریوں کو ان کی زمینوں، جائیدادوں اور ملازمتوں اس لیے محروم کررہی ہے تاکہ وہ تحریک آزادی سے کنارہ کشی اختیارکر لیں لیکن انکا جذبہ آزادی توانا و مستحکم ہے اور وہ اپنی جدوجہد کو مقصد کے حصول تک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔مودی حکومت مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ جمانے اور ہندوؤں کی آبادکاری کیلئے کوشاں ہے۔نہتے کشمیر یوں پر ظلم و ستم کر کے، کشمیریوں کو کشمیر سے بے دخل کر کے، غرض ہر صورت میں وادی پر اپنا مکمل قبضہ چاہتی ہے۔ گویا بی جے پی کی قیادت میں ہندتوا حکومت، نازی نظریہ سے متاثر ہوکر مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لئے ہر حد کو عبور کر چکی ہے۔
بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق دہلی کی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوؤں کو الگ بستی فراہم کرے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔اس سے قبل ہندوستان غیر کشمیری سرمایہ کاروں کے لئے 60000کنال اراضی پہلے ہی فراہم کرچکی ہے۔ بھارتی سرکار کا منصوبہ یہ ہے کہ سرکاری فرنٹ مین وہ زمین خریدیں گے۔ ایک ہندو مندر کو بھی 1000 کنال اراضی فراہم کی گئی ہے۔ جموں میں مسلمانوں سے 4 ہزار کنال سے زائد اراضی ہتھیائی گئی ہے۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے ”انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ“نے جھوٹے مقدمے میں نظر بند معروف کشمیری تاجر ظہور احمد وٹالی کی ضلع بڈگام میں چھ کروڑ روپے مالیت کی اراضی قبضے میں لے لی۔ بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی دو سے تین لاکھ ہندوپنڈتوں کو کشمیر میں بسانے کے لئے پر عزم ہے۔اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں ہندوؤں کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے محفوظ کیمپوں کی تعمیر کے منصوبے کو بحال کرے گی۔
عالمی برادری اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں پر زور دیا گیا کہ وہ مقبوضہ علاقے میں مودی حکومت کے وحشیانہ اقدامات کا نوٹس لیں اور دیرینہ تنازعہ کو اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرائیں۔