کہا جاتا ہے، کہ جاپان کی ریلوے انتظامیہ نے ہوکائیڈو کے علاقہ میں ریلوے سٹیشن بند کرنے کا فیصلہ اس لئے موخر کر دیا کہ اس روٹ پر چلنے والی ٹرین ایک طالبہ کو سفر کی سہولت فراہم کر رہی ہے جو کالج میں گریجویشن کے درجہ میں زیر تعلیم تھی، انتظامیہ کو بتایا گیا کہ ٹرین دن میں دوبار صرف ایک مسافر کے لئے رکتی ہے جب تحقیق کی کہ وہ مسافر کون سا ہے آیا کو ئی تاجر ہے یا سرکاری ملازم تو معلوم ہوا کہ وہ مسافر ایک طالبہ ہے، تعلیم کی تکمیل تک ٹرین کے اس روٹ کو بند نہ کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔
مغربی میڈیا اور دنیاکو جب یہ خبر ملی تو عوامی حلقوں کی جانب سے سرکار کے اس فیصلہ کی بڑی پذیرائی کی اور کہا کہ تعلیم کی اہمیت اہل جاپان ہی جانتے ہیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ انگلینڈ میں بہت سے مقام ایسے ہیں جہاں ٹرین اور بسیں صبح، شام چند مسافروں کو پک اینڈ ڈراپ کے لئے چلائی جاتی ہیں، سرکار کا مقصد پیسہ کمانا نہیں ہوتا بلکہ عوام کو سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس میں زیادہ فوقیت طلباو طالبات کو دی جاتی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب میں چودہ لاکھ طلبا و طالبات کے لئے فری ٹرانسپورٹ کی سہولت سرکار کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے، کم وبیش پچاس ہزار گاڑیاں پندرہ ہزار سکولوں میں پک اینڈ ڈراپ کا فریضہ انجام دیتی ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق 28 ہزار ڈرائیور یہ خدمت بجا لاتے ہیں، اس ضمن میں کمپنی والدین، طلبا، ڈرائیور پر مشتمل لوگوں کے لئے حفاظتی انتظام سے متعلق ایک تعارفی نشست کا اہتما م کراتی ہے، اس میں انھیں تربیت بھی دی جاتی ہے اور پھر جدید سسٹم کے تحت ساری سرگرمی کو مانیٹر بھی کیا جاتا ہے ذرائع بتاتے ہیں کہ دوبئی میں بھی سکول کے بچوں کو بحفاظت تعلیمی اداروں تک پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹ سسٹم جدید خطوط پر کام کرتا ہے، بسوں میں راڈارسسٹم نصب ہے، جس سے ڈرائیور، بس کے عملہ کی بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کرنے کی ہر سرگرمی دیکھی جاتی ہے، مذکورہ عرب ممالک اگرچہ ترقی یافتہ کی صف میں شامل تو نہیں مگر اس کے باوجود طلبا و طالبات کو ٹرانسپورٹ کی قابل تقلید سہولیات دے رکھی ہیں۔
ہمارا شمار ان بد قسمت ممالک میں ہوتا ہے جن کے بچوں کی بڑی تعداد تاحال سکول ہی سے باہر ہے کہا جاتا ہے کہ نائجیریا کے بعد ہمارا نمبر آتا ہے، جو بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں ان کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں
ہے، انھیں اپنے تعلیمی اداروں تک رسائی کے لئے دوسرے ذرائع استعمال کرنا پڑتے ہیں جو غیر محفوظ ہیں، ہماری غالب آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے وہاں بچوں کو شدید سردی اور گرمی میں جنگچی رکشہ پر سفر کرنا پڑتا ہے، بڑی شاہراہوں پر سفر کسی بھی بڑے حادثہ کا سبب بن سکتا ہے، بہت سے واقعات اخبارات میں رپورٹ بھی ہوئے ہیں، بہت سے بچے حصول علم کے شوق میں دنیا سے رخصت ہوئے، شہروں میں بھی صورت حال قابل رشک نہیں یہاں بھی معروف سواری آٹو رکشہ ہے، جس میں بچوں،بچیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح لادا جاتا ہے انکے آدھے اعضا رکشہ کی حدود سے باہر ہوتے ہیں، مگر کوئی قانون لاگونہیں ہوتا، انکے ڈرائیور بھی غیر تربیت یافتہ ہوتے، انکی سرگرمی کو مانیٹر کرنے کا کوئی بھی اہتمام موجود ہی نہیں ہے، بہت سے حادثات ہونے کی شہادت یہاں بھی پائی جاتی ہے، بڑے شہروں میں طلبا و طالبات کے لئے محفوظ ٹرانسپورٹ کی فراہمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف سے ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی تو جاتی ہے، یہ مہنگی ہونے کے علاوہ غیر معیاری بھی ہے، تمام ادارے ٹرانسپورٹ کی مد میں فیس قریباً تمام طلبا و طالبات سے وصول کرتے ہیں مگر ٹرانسپورٹ کی سہولت قلیل تعدادکو میسر آتی ہے، بہت سے بچوں کو بسوں میں کھڑے ہو کر بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔
سرکاری کالجزاور جامعات میں بھی صورت حال قابل رشک نہیں ہے، ملک بھر کی تمام جامعات کے طلبا و طالبات شکوہ کناں ہیں کہ طلبا بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود ٹرانسپورٹ کی سہولت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جاتا، بسوں میں دھکم پیل کی صورت حال ہوتی ہے طالبات کو اس ضمن میں زیادہ اذیت اٹھانا پڑتی ہے۔
گذشتہ دنوں جامعہ بہاؤالدین زکریا ملتان میں ایک نوجوان کی ہلاکت کا سانحہ پیش آیا جب جامعہ کی ایک بس طالب علم پر چڑھ گئی جب وہ اپنی موٹر سائیکل کے لئے ٹوکن لے رہا تھا، اسی طرح گورنمنٹ ایسوسی ایٹ علمبردار ڈگری کالج ملتان کے پرنسپل محترم علی سخن ور نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی وہ اس واقعہ کے عینی شاہد تھے کہ خواتین یونیورسٹی ملتان کی بس کے عملہ نے ایک طالبہ کو انتہائی غیر محفوظ طریقہ سے ڈراپ کیا کہ وہ سڑک پر گر گئی، اس کے ڈرائیور نے طالبہ کے اترنے سے پہلے ہی بس چلا دی،مقام شکر وہ محفوظ رہی ورنہ بڑ احادثہ ہو جاتا۔
پنجاب کے مختلف شہروں میٹرو بس سروس اور لاہور میں اورنج ٹرین سے طلبا وطالبات کو آرام دہ محفوظ سفر کی سہولت میسر ہے، مگر اسکی سپروٹنگ ویڈ ا ٹرانسپورٹ میں کم گنجائش کی بدولت ان طالبات کو شدید پریشانی ہے جنہیں دور دراز قصبات سے ان میں سوار ہونا پڑتا ہے۔
سرکاری جامعات کے طلبا وطالبات کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا کے اس عہد میں جب آن لائن کلاسز کا اجرا کیا گیا تھا،سب اپنے اپنے گھروں میں محصور رہے اس کے باوجود سرکاری اداروں نے ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں کوئی ریلیف نہیں دیا۔
بڑی جامعات جو وسیع و عریض رقبہ جات پر مشتمل ہیں، وہاں کے طلبا و طالبات کا مسئلہ یہ ہے کہ سکیورٹی کے نام پر گاڑیوں کا داخلہ بند کر دیا جاتا ہے، اس علاقہ پر پھیلے مختلف شعبہ جات واقع ہوتے ہیں، کسی نہ کسی کام یا کلاس میں شرکت کے لئے کیمپس کی حدود میں پیدل ہی سفر کرنا پڑتا ہے، طلبا کو تو کوئی نہ کوئی سواری مل جاتی ہے اصل دشواری طالبات کو ہوتی ہے کہ وہ طویل راستہ کیسے طے کریں۔
بڑے برانڈ کا درجہ رکھنے والی جامعات میں اندورنی ٹرانسپورٹ کے مسائل ہیں حدت اور شدت کے موسم میں یہ معاملہ درد سر بن جاتا ہے۔ ایسے طلبا و طالبات جو دوسرے شہروں میں پڑھنے پر مجبور ہیں انھیں اپنے آبائی علاقہ یا گھر آنے کے لئے بھاری بھر سفری اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں، قانونی طور پر رعایتی ٹکٹ کی سہولت ریل میں تو ہے مگر طالبات کے لئے اکیلے سفر کرنا قدرے مشکل ہے، علاوہ ازیں یہ سہولت بھی سرکاری اداروں کے طلبا و طالبات کو ہے جو نجی اداروں میں زیر تعلیم ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ والدین کو تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ سفری خرچ کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کوئی ایسی راہ نکا لی جائے کہ دوسرے شہروں میں مقیم طلبا و طالبات کو کرا یہ میں رعایت مل جائے۔
سرکاری اداروں میں داخلہ نہ ہونے کا ایک سبب معیاری محفوظ آرام دہ ٹرانسپورٹ سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہماری تعلیمی مشکلات کی بڑی وجہ محدود تعلیمی بجٹ ہے، مگر محفوظ آرام دہ ٹرانسپورٹ فراہم کرنا کہ طلباو طالبات بحفا ظت اپنے اداروں میں بآسانی پہنچ سکیں زیادہ مشکل کام نہیں، مقامی حکومتوں کو یہ فریضہ سونپا جاسکتا ہے۔ ایک جاپانی ہیں جو ایک طالبہ کے لئے پوری ٹرین چلا رہے ہیں ایک ہم ہیں جو چلتے سکول بند کر دیتے ہیں۔