میں نے کہا کہ طارق بشیر چیمہ کو برطرف کرو مگر میں جانتا ہوں کہ ایک انتہائی کمزور مخلوط حکومت کا سربراہ اپنی اس اتحادی پارٹی کے وزیر کو برطرف نہیں کرسکتا جس کے سر پر حکومت قائم ہواور مجھے یقین ہے کہ اگر یہی کچھ مسلم لیگ نون کا کوئی وزیر کر رہا ہوتا جو یہ صاحب کررہے ہیں تو اب تک اس کی اچھی خاصی گوشمالی ہوچکی ہوتی۔ مسئلہ سب کو علم ہی ہے کہ طارق بشیر چیمہ صاحب نے فوڈ سیکورٹی کے وزیر کے طو رپر جینی ٹیکلی موڈیفائیڈ سویابین لانے والے بہت سارے جہاز بندرگاہ پر روک دئیے ہیں۔ یہ سویابین نہ صرف تیل نکالنے کے لئے استعمال ہوتی ہے بلکہ اس کے پھوک سے فارمی مرغی کی خوراک بھی تیار ہوتی ہے۔چیمہ صاحب کا موقف ہے کہ پاکستان جی ایم او کی امپورٹ نہ کرنے کے عالمی معاہدے کا دستخط کنندہ ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس خوراک سے تیار ہونے والی مرغی کی صورت میں ’زہر‘ کھلایا جا رہا ہے۔ ان کی طرف سے سویابین کی درآمد کے ذریعے بڑے مافیاز کے اربوں روپے کمانے کے الزامات بھی ہیں۔ چیمہ صاحب کے عوام کی اس عظیم حب الوطنی، بین الاقوامی قوانین کی اچانک پاسداری اور عوام کے شدید ترین درد کی وجہ سے تین سو روپے کی اوسط قیمت پرفروخت ہونے والی مرغی کی آج لاہور میں قیمت پانچ سو چونتیس روپے فی کلو ہے جبکہ بعض جگہوں پر یہ چھ سو روپے تک جا چکی ہے۔
آئیے طارق بشیر چیمہ کے تینوں دلائل کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان اگر جی ایم او(جینی ٹیکلی موڈیفائیڈ آرگنزم) کی امپورٹ پر پابندی لگا نے کا دستخط کنندہ ہے تو وہ دستخط ابھی فوری نہیں ہوئے۔ اگر آپ جی ایم او کی درآمد روکنا چاہتے ہیں تو اس کی ایک ٹائم لائن بنائیں کہ یہ درآمد دس، بارہ برس سے ہو رہی ہے اور فارم ہاوسز کے پاس چکن کی فیڈ کے لئے یہ سب سے سستا اور بہتر ذریعہ ہے۔ اس سے ہمارا فارمر ایک کلو فیڈ سے ڈیڑھ کلو گوشت حاصل کر لیتا ہے۔ میں جی ایم او کی درآمد روکنے کا مخالف نہیں ہوں مگر اس با ت کا مخالف ضرور ہوں کہ آپ بندرگاہ پر آئے ہوئے جہازوں کو روک دیں۔ ہماری کمپنیوں کو روزانہ لاکھوں ڈالر ان کا کرایہ ادا کرنا پڑے۔ فوڈ سیکورٹی کی منسٹری کو اس کے لئے باقاعدہ ٹائم لائن بنانی چاہئے تھی، اسے مشتہر کرنا چاہئے تھا اور یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ ہمارے فارمر مقامی طو رپر فیڈ کے حصول کی پائپ لائن بنا لیتے۔ جہاز روکنے سے مقامی فیڈ پر دباو بڑھا تو اس کے نرخ دوگنے سے بھی زائد ہو گئے یعنی نقصان اور وہ بھی ڈبل۔ یہ نقصان ڈبل نہیں ہے بلکہ ٹرپل ہے کیونکہ اس خام مال سے فیڈ تیار کرنے والے بہت سارے کارخانے بند ہوگئے ہیں جیسے ہائی ٹیک فیڈز پرائیویٹ لمیٹڈ۔ اکتوبر سے جب یہ حرکتیں شروع ہوئیں تو کام بند ہوگیا اور مالکان نے نومبر میں اپنے پانچ ہزار کارکنوں کو ایک ایک مہینے کی سیلری دیتے ہوئے چھٹی کروا دی کہ ہمارے پاس اب تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہوں گے اور یہ صرف ہائی ٹیک کی بات نہیں، سینکڑوں کارکنوں والی کئی فیکٹریاں بھی بند ہوئی ہوں گی، آہ، طارق بشیر چیمہ تمہیں کتنے گھروں سے بددعائیں ملی ہوں گی۔ ماوں، بہنوں، بیٹیوں نے اپنے بیٹوں، بھائیوں اور شوہروں کے بے روزگار ہونے پر جھولیاں اٹھائی ہوں گی۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب شہباز شریف کی حکومت کے پاس طارق بشیر چیمہ جیسے وزیر موجود ہیں تو قدرت نے ان کے لئے عمران خان کی صورت عذاب کیوں اتار رکھا ہے، ان کے لئے چیمہ صاحب ہی کافی ہیں۔ اس وقت پی ڈی ایم حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ آٹا مہنگا صوبائی حکومت کی وجہ سے ہو رہا ہے مگر وہ انتہائی ہوشیاری سے اس پر بھی گالیاں وفاقی حکومت کوپڑوا رہے ہیں۔ برائلر مرغی عام آدمی کے لئے گوشت کھانے کی عیاشی کاواحد ذریعہ ہے ورنہ ایک مزدور دو ہزار روپے کلو والا مٹن کیسے کھا سکتا ہے۔ طارق بشیر چیمہ نے انڈسٹری کو اپنی بڑی اورموٹی ٹانگ اس وقت ماری ہے جب شادیوں کا سیزن عروج پر ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جس بندے یا بندی کی شادی پر ان کی وجہ سے پرہیڈ خرچہ دو، چار سو بھی بڑھا ہو گا وہ یقینی طور پر ان کی منحوس ایڈمنسٹریشن کو زندگی بھر یاد رکھے گا کہ ان حکمرانوں نے اس کی شادی پر انہیں کیا ’نیوندرا‘ ڈالا تھا اور پھر وہ اس نیوندرے کو انتخابات میں کچھ مزید لعنتیں شامل کر کے لوٹا دے گا۔ چیمہ صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ تو مرغی کھاتے ہی نہیں، ظاہر ہے ان کے پاس بہت مال ہے وہ دیسی بکرے، ہرن، تیتر اور بٹیر اڑاتے ہوں گے۔ انہیں کیا علم کہ برائلر مرغی کس طرح ہماری غریب عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کا سہارا بنی ہوئی ہے۔ان کا برائلر مرغی کو زہر کہنا بالکل اسی قسم کی سویپنگ سٹیٹمنٹ ہے جس طرح یہ کہنا ہے کہ پی ڈی ایم چوروں اور ڈاکووں کا ٹولہ ہے۔ جی ایم او کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ کچھ طبی مسائل ہوتے ہوں مگر ہمارے عوام برس با برس سے یہی جی ایم او سے تیار کی ہوئی مرغی کھا رہے ہیں اور پھر وہی بات کہنی ہے کہ آپ نے اسے روکنا ہے تو طریقے سے روکیں۔ پولٹری ایسوسی ایشن پر آپ الزامات لگاتے رہیں اور مافیا کہتے رہیں مگر دوسری طرف پولٹری ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ وزیر صاحب نے ان سے لمبے ’تھبو‘ مانگے اور نہ دینے پر باقاعدہ لڑ پڑے، توتومیں میں سے بات ہاتھا پائی تک پہنچی اور وزیر صاحب نے پوری پولٹری ایسوسی ایشن کی لائف لائن پر اپنا بھاری بھرکم جسم رکھ دیا، وہ کچل کے رہ گئی۔
ابھی ہم عمران خان کی حکومت کی نااہلیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں کے ماتم کر رہے تھے کہ اس سے بھی بڑھ کے نمونے آکے بیٹھ گئے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ والی انڈسٹری ٹیکسٹائل بھی وینٹی لیٹر پر ہے۔ ملکی ضروریات کے لئے کپڑا تیار کرنے والی پاور لومز ستر سے اسی فیصد بند ہو چکی ہیں اور باقیوں نے ہفتے میں تین دن کا شٹ ڈاون شروع کر رکھا ہے۔ اس کے صرف فیصل آباداور گردو نواح میں تین لاکھ میں سے دو لاکھ مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں اور وہ ہرروز فیصل آباد کی کسی نہ کسی سڑک پر بیٹھ کے حکومت کاماتم کرتے ہیں اوراس کے بعد حکومت نے پولٹری کی انڈسٹری پر خود کش حملہ کر دیا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ حکومت جی ایم اوکی امپورٹ روکنا چاہتی ہے تو ضرور روکے مگر اس کے ساتھ ساتھ متبادل کے لئے وقت فراہم کرے۔ پولٹری کی تیزی سے بند ہوتی ہوئی انڈسٹری کا ڈاون فال روکے۔ اس انڈسٹری کا بند ہونا صرف اس کا بند ہونا نہیں ہے۔ اس سے میرے گلی محلوں میں برگر، پیزا، شوارما اور سوپ تک بیچنے والے معصوم بچوں کے سٹال اور ٹھیلے تک بند ہوجائیں گے۔ طارق بشیر چیمہ مجھے اس وقت پورے عمران خان لگ رہے ہیں جو اچھی باتوں کے نام پر تباہی مچاتے ہیں۔ شہباز شریف پریکٹیکل ہوکے سوچیں اور پولٹری انڈسٹری کو بند ہونے سے بچائیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اگر طارق بشیر چیمہ نہ رہے تو حکومت نہیں رہے گی اور میں کہتا ہوں کہ اگر طارق بشیر چیمہ رہے تو پھربھی حکومت نہیں رہے گی، چھٹی مہنگائی اوربے روزگاری کے مارے عوام کروائیں گے۔