ایران امریکہ تنازع ،پاکستان کس کا ساتھ دیگا ؟حکومت نے دوٹوک اعلان کر دیا

06:15 PM, 6 Jan, 2020

اسلام آباد:وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور نہ ہی پاکستان خطے کے کسی تنازع میں حصے دار بنے گا۔


شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا موجودہ حالات نے نئے تناو¿ کو جنم دیا جو اسامہ بن لادن اور ابوبکر الغدادی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہوسکتا ہے،ہمیں استحکام کو خطرہ دکھائی دے رہا جس پر حکومت پاکستان کو شدید تشویش ہے،منفی اثرات افغانستان پر بھی ہوسکتے ہیں ،لبنان کی حزب اللہ اسرائیل پر حملہ کرکے اسے راکٹ سے نشانہ بناسکتے ہیں، خطے میں شدید قتل و غارت گری بڑھے گی۔اقوام متحدہ اس خطہ کو آگ اور عدم استحکام سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرِ صدارت ایوان بالا کے اجلاس میں امریکہ ایران کشیدگی سے متعلق بیان دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 27 دسمبر کو ایک راکٹ حملے کے ذریعے عراق میں امریکی قافلے پر حملہ ہوا اور اس میں ایک امریکی کانٹریکٹر مارا گیا اور دیگر زخمی ہوئے۔انہوں نے کہا کہ 29 دسمبر کو اس حملے کے ردعمل کے نتیجے میں امریکا نے کارروائی کی اور اس ملیشیا کے 25 افراد ہلاک ہوئے اور 50 زخمی ہوئے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی حملے کے جواب میں احتجاج کا فیصلہ کیا اور 31 دسمبر کو بغداد میں امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے جس میں جلاو¿ گھیراو¿ بھی کیا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خوش قسمتی سے امریکی سفارت خانے کو بروقت خالی کروالیا گیا تھا تو کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی تھی۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے یکم جنوری 2020 کو اس احتجاج کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا بلکہ ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی، جنہیں بعد میں نشانہ بنایا گیا، انہیں اس کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ موجودہ حالات نے نئے تناو¿ کو جنم دیا جو اسامہ بن لادن اور ابوبکر الغدادی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ 3 جنوری کو ایک ڈرون کے ذریعے قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ان کا انتقال ہوگیا اس کے ساتھ ساتھ عراق کی ملیشیا کے ڈپٹی کمانڈر ابو المہدی المہندس اور دیگر 9 افرادہلاک ہوئے تھے۔انہوں نے اس واقعہ کو خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین نہ صرف تشویشناک کہتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ اہمیت کی لحاظ سے ان کی نظر میں اس واقعے کے اثرات 2011 کے آپریشن میں اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے اور 2019 میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی سے بھی زیادہ گہرے،سنگین اور تشویشناک ہوسکتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران اور عراق میں احتجاجی کیفیت نے جنم لیا لوگ سڑکوں پر آگئے اور غم و غصہ کا اظہار کیا جو آج بھی جاری ہے۔وزیر خارجہ نے احتجاجی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ایران کی قیادت نے سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا اس کے ساتھ ساتھ عراق میں بھی اس کے خلاف عوامی ردعمل سامنے آیا اور جب 2 روز قبل قاسم سلیمانی کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تو لوگوں کی تعداد سے اندازہ لگالیں کہ ردعمل کی کیفیت کیا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ عراق کی پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس گزشتہ روز طلب ہوا اور اس اجلاس میں پوری صورتحال کا احاطہ کرنے کے بعد قرارداد منظور کی گئی کہ تمام غیر ملکی فوجیوں کو ملک چھوڑ دینا چاہیے اور وزیر خارجہ کو ہدایت کی گئی کہ امریکی فضائی حملہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی کرتا ہے لہذا اقوام متحدہ میں احتجاج ریکارڈ کروایا جائے۔

شاہ محمود قریشی نے کہاکہ یہ صورتحال جو ابھی ابھر رہی ہے اس کو بھانپتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے 3 جنوری کو اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے خطے کے اہم وزرائے خارجہ سے بات چیت کی، میں نے ایران کے وزیر خارجہ سے تفصیلی بات چیت کی اور اس واقعے پر پاکستان کا موقف پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے متحدہ عرب امارات، ترکی اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ سے بھی بات چیت کی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کے ذہن میں 3 اہم نقطے ہیں، پہلا وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اقدام جنگ کو روکنے کے لیے تھا، دوسرا یہ کہ اب ہم مذاکرات اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تیار ہیں، ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایران کی جانب سے کوئی ردعمل آیا تو ہمارا ردعمل مزید سنگین ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ تمام معاملے کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان سمجھتی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل بہت سنجیدہ معاملہ ہے اور اس کے اثرات کو ہم نے بحیثیت قوم سمجھنا ہے کیونکہ اس معاملے کا اثر ہوگا اور وہ استحکام کے لیے خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں استحکام کو خطرہ دکھائی دے رہا جس پر حکومت پاکستان کو شدید تشویش ہے، اس واقعے سے خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا اور عراق اور شام میں عدم استحکام کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے منفی اثرات افغانستان پر بھی ہوسکتے ہیں اور اس سے وہاں امن عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس معاملے کی آڑ میں یمن کے حوثی سعودی عرب پر مزید حملے کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کی حزب اللہ اسرائیل پر حملہ کرکے اسے راکٹ سے نشانہ بناسکتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ اس سے خطے میں شدید قتل و غارت گری بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ آبنائے ہرمز کی بندش ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں تیل کی ترسیل متاثر ہوگی جس کے اثرات عالمی معیشت پر مرتب ہوں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایران، امریکا سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہوسکتا ہے تہران یورینیم افزودگی پر عائد پابندیوں سے عملی طور پر پیچھے ہٹ گیا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کسی یکطرفہ عمل کی تائید نہیں کرتا اور طاقت کا استعمال ٹھیک نہیں اس سے مسائل بڑھ سکتے ہیں ختم نہیں ہوسکتے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ یہ خطہ کسی بھیانک جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا اس کے بھیانک اثرات ہوں گے، ہم اس خطے کا حصہ ہیں جو آگ لگے گی ہم اس کی گرمائش سے نہیں بچ پائیں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان واضح طور پر موقف اپناچکا ہے اور میں نے چند وزرائے خارجہ سے شیئر بھی کیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور نہ ہی پاکستان خطے کے کسی تنازع میں حصے دار بنے گا۔ انہوںنے کہاکہ آگ بھڑکانے کی نہ ہماری پالیسی تھی نہ حصہ بنیں گے، ہم اصول کی پاسداری کے قائل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایران سے کہا وہ کسی کشیدگی میں اضافے کے اقدامات میں نہ پڑے، سب فریق صبر و تحمل سے کام لیں کیونکہ خطہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، آگ لگے گی تو ہم اثرات سے بچ نہیں سکتے۔

مزیدخبریں