واشنگٹن : صدر ٹرمپ کے عہد ہ صدارت سنبھالنے کے بعد شمالی کوریا ہے کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں ۔شمالی کوریاکی ایٹمی حملے کی دھمکی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دھمکی دی ہے ایٹمی بٹن اسکے پاس ہے جب چاہے گا منٹوں میں کوریا کو تباہ کر دے گا۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایسا بٹن ہے کہ نہیں ۔ کیا صدر ٹرمپ اکیلا ایسا فیصلہ کر سکتاہے ؟ تو چلیں ہم آپکو بتاتے ہیں ۔
امریکی صدر ٹرمپ کا کہناہے کہ اس کے پاس ایٹمی بٹن ہے ۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے ۔ واقعی ہو گئے ناں حیران ۔ اس بٹن کی بجائے جو ٹرم استعما ل ہو تی ہے وہ "فٹبال " اور بسکٹ " کی ہے ۔اصل میں تو امریکی فوج کا کمانڈرا نچیف کے اختیارا ت صدر ٹرمپ کے پاس ہیں اور وہ ہی ایٹمی بم گرانا کا فیصلہ کرسکتاہے ۔لیکن ایٹمی بم گرانے سے پہلے اسے دو مشیروں سے رابطہ کرنا پڑے گا۔
جو ایٹمی حملہ کرنے کے بارے میں اپنا مشورہ دے سکتے ہیں ۔ لیکن ان کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ اس روک سکیں ۔ مشورہ دینا فرض ہے ۔ باقی صدر کا کام ہے کہ وہ مشورے کے بعد حملہ کرے یا نہ کرے ۔
مشورہ کرنے والؤں میں پینٹاگون کا ڈپٹی ڈائریکٹر اور دوسرا جو نیشنل ملٹری کمانڈ سنٹر میں تعینات ہوتاہے جبکہ دوسرا یو ایس کمانڈر آف سٹریٹیجک کمانڈ ہے ۔پہلے والے کو فٹبال جبکہ دوسرے کو بسکٹ کی ٹرم سے جانا جاتاہے ۔اصل میں"فٹبال " وہ 45 پونڈ وزنی بریف کیس ہے حملہ کرنے کے لیے مختلف مینیو ہوتے ہیں ۔اس بریف کیس کو ملٹری کے اہم اہلکار اپنے ساتھ ہمیشہ صدر کے آس پاس ہی رکھتے ہیں ۔
اگر صدر حملہ کرنا چاہے تو اس بریف کیس میں موجود کوڈز پینٹاگون تک پہچائے گا ۔جس کے بعد پینٹاگو ن اس کوڈز ایٹمی حملہ کے لیے ہر وقت تیار ایٹمی آبدوز یا زمینی عملہ کو پہنچائے گا.ان جگہوں پر تعینات دو اہم فوجی افسران ان کوڈز اور کیز کو استعمال کرکے ایٹمی میزائل کو داغیں گے ۔اس سارے معاملے میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ درکار ہوتے ہیں ۔اور اس طرح ایٹمی بٹن سمجھا جانے والا سسٹم کام کرتاہے ۔
فرق صرف یہ ہوتاہے کہ اس میں صدر کا فیصلہ ہی آخری ہوتاہے ۔کسی کو اس ایٹمی حملے کو روکوانے کی جرت نہیں ہو تی ۔آخری وقت پر بھی حملہ روکنے کا اختیار صرف امریکی صدر کے پاس ہو تاہے ۔