دوستو،ایک پاکستانی اور ایک مسلمان کے طور پر قوم کا ہر فرد دن میں کم سے کم ایک بار نجات کی بات ضرور کرتا ہے۔۔ مسلمان کی حیثیت سے تو دوزخ سے نجات سب کی خواہش ہوتی ہے لیکن بطور پاکستانی پوری قوم ہی ہر حکمران سے کچھ ہی عرصے میں مایوس ہونے کے بعد اس سے نجات کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں، لیکن یہ معاملہ اب صرف دعا تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ وہ زمانے گئے جب قوم سڑکوں پر نکل آتی تھی اور ظالم حکمران کا دھڑن تختہ ہوجاتا تھا، اب پوری قوم دال روٹی کے ایسے گھن چکر میں پھنس چکے ہیں کہ سب کو اپنے گھر کی فکر رہتی ہے جو ہم سب کا ’’گھر‘‘ یعنی پاکستان ہے اس کے متعلق کوئی نہیں سوچتا۔۔قوم ایک ہجوم میں تبدیل ہے،سب کو اپنی اپنی فکر لاحق ہے اور شایددیگر قوموں سے ہمارے پیچھے رہ جانے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی کمزوری ہے۔۔
باباجی کے دلچسپ واقعات کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔۔ مہنگائی کے حوالے سے باباجی نے تازہ قصہ سنایا ہے، کہتے ہیں کہ۔۔دوست کے اباجی فوت ہوگئے،دھاڑیں مارمارکر رویا،(دوست رویا،باباجی نہیں روئے)۔لیکن بعداز کفن دفن دوست ایک دم سنجیدہ ہوگیا۔ باباجی کہتے ہیں جب دوست کو انتہائی خطرناک حد تک سنجیدہ دیکھا تو وجہ جاننی چاہی، دوست کہنے لگا۔۔ کفن پانچ ہزار کا آیا، گورکن نے تین ہزار روپے لئے، مولوی صاحب نے جنازہ پڑھائی،دعا کرائی اور مردہ بخشوائی کے پانچ ہزار روپے اینٹھے۔۔دوسرے دن قُل خوانی پر 30ہزار کا خرچ آیا، 4 ہزار مسجد کو دیئے، 8 ہزار کے کپڑے اِن رشتہ دار خواتین کو جو دور دراز سے تعزیت کے لئے تشریف لائیں تھیں، چھ ہزار تمبو قنات والا لے گیا، 3 ہزار حافظ صاحب نے لے کر تین دن قبر پر قرآن پڑھا، 3 ہزار پیر صاحب کی نذر کیا جو اباجی کی وفات کا سن کر گھر آگئے تھے اور اباجی کو اپنا چہیتا مرید بتارہے تھے۔۔بارہ ہزار میں جمعرات کی دیگ پکی۔۔اب چالیس روز تک مولوی صاحب کے گھر کھانا بھی بھجوانا ہے،پھر چالیسواں بھی دھوم دھام سے کرانا ہے، کیوں کہ پوری برادری نے آنا ہے۔۔دوست نے پھر ٹھنڈی آہ بھرکرکہا۔۔زندگی تو موت کی امانت ہے لیکن باباجی اگر گندم کی فصل اُٹھانے کے بعد فوت ہوتے تو ذرا اچھے طریقے سے رُخصت کرتا، پتا نہیں نجات بھی ہو گی کہ نہیں۔۔ باباجی کہتے ہیں،میں نے دوست سے کہا۔۔ بھائی نجات تو اعمال میں ہے،باقی تو سب رسم و رواج ہیں۔۔دوست بولا۔۔بھائی میں اپنی نجات کی بات کررہا ہوںاس ظالم برادری کے ہاتھوں۔۔اباجی تو بخشے بخشائے تھے۔۔یہ واقعہ سن کر ہمارے پیارے دوست کی بھی رگ ظرافت پھڑکی ، انہوں نے بھی ’’دستی‘‘ ایک واقعہ سنا ڈالا۔۔ کہنے لگے۔۔دوست کی نانی کا انتقال ہوا تو میں چھ مہینے بعد تعزیت کرنے نانا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ میں نے کہا۔۔ اللہ بخشے، نانی جان بہت ہی پیاری، نیک، باوفا ، درویش صفت اور تابعدار خاتون تھیں۔۔ نانا جان نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے کہا۔۔بیٹا 50 سال میری بیوی رہی میں نے تو ایسا کچھ اس میں نہیں دیکھا۔۔
مکافات عمل کو آسان الفاظ میں سمجھایاجائے تو پہلے عورتیں کنویں سے پانی بھرنے جایا کرتی تھیں، اب مرد فلٹر پلانٹ سے بھر کر لاتے ہیں۔ اسکول کا پرنسپل ایک گوشت والی بڑی شاپ میں گیا اور کاؤنٹر پر لڑکے سے کہا بیٹا دو کلو گوشت دینا۔لڑکے نے عزت سے بٹھایا، چائے پلائی اور اپنے ملازم سے کہا کہ۔۔ دو کلو اچھا گوشت بنائیں اور ملازم نے خود جاکر اس کی گاڑی میں رکھ دیا۔پرنسپل نے جب پیسے دینے چاہے تو اس نے منع کردیا۔۔ پرنسپل نے پوچھا ،بیٹا کیا تم مجھے جانتے ہو؟ لڑکے نے کہا۔۔جی سر، آپ میرے استاد ہیں۔ ایک بار کلاس میں غلطی کرنے پر آپ نے کہا تھا کہ تب تک کلاس میں نہیں آنا جب تک اپنے سرپرست کو نہ لاؤ۔۔تو میں سکول سے بھاگ گیا اور قصائی کے ہاں کام شروع کردیا۔ اب الحمدللہ میری چار گوشت کی دکانیں ہیں ایک بڑا فارم ہے اور ایک شاندار گھر بھی لے لیا ہے۔تب پرنسپل نے ایک سرد آہ بھری اور کہا۔۔جی بیٹا مجھے یاد آگیا۔۔ کاش میں بھی تمہارے ساتھ اس دن بھاگ جاتا۔۔باباجی فرماتے ہیں۔سابقہ محبوب کی شادی کا کارڈ ملا، دکھ تو بہت ہوا مگر جانا پڑا، پریشانی اپنی جگہ، اور بریانی اپنی جگہ۔۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ۔۔پاکستان میں بندہ بیمار ہو تو ساتھ مُوڈ بھی خراب رکھنا پڑتا ہے، نہیں تو سب سمجھتے ہیں کہ ڈرامہ کر رہا ہے۔۔ایک بار ہم نے باباجی سے پوچھا، شادی شدہ بندے کی پہچان کیا ہے؟ باباجی نے مسکراتے ہوئے برجستہ کہا۔۔وہ شکل سے سیانا اور باتوں سے کملا لگتا ہے۔۔چھٹی والے دن اکثر گھرانوں میں باہر سے ناشتہ منگوانے کا بڑا ٹرینڈ اب بھی پایاجاتا ہے۔۔ چھٹی والے دن صبح حلوہ پوری اور چائے پراٹھے کی دکانوں پر کچھ مشکوک قسم کے لوگ نظر آتے ہیں۔۔ جن کی نشانیاں کچھ اس طرح ہوتی ہیں۔۔ شلوار کے اوپر میلی سی ٹی شرٹ یا کوٹ پہنا ہو گا۔۔ ٹراوزر پر عجیب سی قمیص پہنی ہو گی۔۔ سر کے بالوں کی حالت اجڑی ہو گی۔۔ ساری جیبوں میں بار بار ہاتھ مارنے کے بعد کسی خفیہ جیب سے پیسے برآمد کریں گے۔۔ زیادہ تر نیند کی حالت میں ہونگے۔۔ ان لوگوں کو محبت اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہے۔۔ یہ معصوم لوگ شوہر حضرات ہوتے ہیں۔۔جنھیں چھٹی والے دن نیند سے زبردستی جگا کر ناشتہ لینے کیلئے گھر سے باہر دھکیل دیا جاتا ہے۔۔یہ بے چارے اتنے معصوم ہوتے ہیں کہ ۔۔ساون میں جو بوندا باندی ہوتی ہے،انہیں یہ تک پتہ نہیں چلتا کہ۔۔بوندا کون سا ہے اور باندی کون سی ہے؟؟ باباجی شوہروں کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ۔۔ سپرہٹ بلاک بسٹر ڈرامہ’’ میرے پاس تم ہو‘‘ میں یہ سبق دیا گیا تھا کہ مرد دنیا کا ہردکھ برداشت کرسکتا ہے مگر بیوی کی واپسی کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتا۔۔ایک خاتون کی شادی نزدیک تھی، رنگ ان کا کچھ دبا،دبا سا تھا،اس لئے انہوں نے بازار سے ایک مہنگی ترین رنگ گورا کرنے والی کریم لی اور اسے بلاناغہ چہرے پر لگانا شروع کردی، کچھ دنوں بعد خاندان کی ایک تقریب میں جاناہوا، تو وہاں ایک مہمان خاتون نے پوچھا، آج کل کیا لگانا شروع کردیا ہے جو اس قدر سفید سفیداور خوب صورت لگ رہی ہو۔۔کریم لگانے والی خاتون نے بغیر کوئی وقفہ لئے کہنا شروع کیا۔۔پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہوں اس لئے آپ کو جو میرا چہرہ سفید،سفید لگ رہا ہے یہ ’’نور‘‘ چھلک رہاہے۔۔مہمان خاتون شاید فیصل آبادی تھی،برجستہ بولی۔۔تہجد اور اشراق بھی شروع کردو، تاکہ گردن بھی سفید نظر آئے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں، تمام مشکلات ختم ہوسکتی ہیں ،اگر ہم ایک دوسرے کی باتیں کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے باتیں کریں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔