ہر طرف خوف کے آثار نظر آتے ہیں
بس شکستہ درو دیوار نظر آتے ہیں
لیکن بھلا یہ حقیقت کون مانے؟ جب چوکیدار ہی مال مفت دلِ بے رحم کے مصداق مالک کا مال و متاع جیب میں ڈال کر ڈھول باجے پر خود بھی جھومے اور دوسروں کو بھی جھومنے پر مجبور کردے تو پھر’نئی ریساں ساڈھے آئی جی صاحب دیاں‘ کے گانے کے بول یقیناکانوں میں رس گھولتے ہیں۔ایسے میں جب ’بڑے داروغہ‘ کے دربار میں خود نمائی کا کلچر پوری طرح اپنے پنجے گاڑھ لے اورمصاحبین کی منڈلی انجمن ِ ستائش باہمی کی شکل اختیار کرلے تو پھرسب ناچیں گے بھی اورگائیں گے بھی۔ یقیناً پنجاب پولیس کے تیارکردہ اس گانے کی گونج ان دنوں چار کھونٹ سنی جارہی ہے۔
لیکن ریاستِ پاکستان کے باسیوں کے لیے ایسے میں جان و مال کا تحفظ خواب ہوا،انہیں اپنے ہی سائے سے ڈر نہ لگے تو اور کیا ہو۔اگر یہ بات غلط ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر خود فیصلہ کرلیں کیا آج ہر پاکستانی بالخصوص صوبہ پنجاب کے باسی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں؟کیا انہیں ہر وقت یہ خوف دامن گیر نہیں ہوتا کہ کسی سڑک،گلی یا پھر چوراہے پرسفر کرتے انہیں کوئی راہزن لوٹ نہ لے؟اگر وہ کسی اندھی گولی سے بچ بھی گئے تو کیا گارنٹی ہے کہ کوئی پولیس والا کسی ناکے پر انکی توہین اور جیب خالی نہیں کرے گا؟گویا
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
اب اگر حساب کتاب کا دفتر کھولا جائے تو اسکا ہر عدد واشگاف انداز میں یہ حقیقت اظہر من الشمس کر رہا ہے کہ سلطانِ وقت نے ایک طرف ان کی جیبیں کاٹ کر پنجاب پولیس کی جیب خوب گرم کی ہے تو دوسری جانب رواں سال ڈاکوؤں اورراہزنوں کو عوام کی جیبیں مزید کاٹنے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ لاہور کے ایک سینئر صحافی عامر رانا کے مطابق رواں سال پنجاب پولیس کو 14 ارب کا تاریخی بجٹ دیا گیا تاہم ڈکیتی، چوری، قتل اور اغوا برائے تاوان سمیت سنگین جرائم کی9لاکھ سے زائد وارداتیں پنجاب پولیس کی حقیقی کارکردگی کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ سوچیں ایسے میں اگر ان ہزاروں وارداتوں کا حساب بھی کیا جائے جو پنجاب پولیس کے ریکارڈ میں درج نہیں کی گئیں تو یقینا یہ اعدادوشمار امن و امان کی زبوں حالی کا پردہ آشکار کرنے کے لیے کافی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ڈاکے، راہزنی اور چوروں کی وارداتیں سرِ فہرست رہیں۔ عورتوں اور بچوں کے اغو ا کی 21ہزار 6سو ستر وارداتیں رپورٹ ہوئیں جن میں زیادتی کے 4ہزار ایک سو 80 واقعات ہوئے۔ گینگ ریپ کے 481 واقعات رپورٹ ہوئے۔ حکومت اور پولیس حکام کے دعووں کے برعکس 7سو 21 پولیس مقابلوں میں جن میں اکثریت جعلی پولیس مقابلوں کی تھی 477 ملزمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن اس اقدام کے باوجود پنجاب میں سنگین جرائم کی وارداتوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انجمن ستائش باہمی اور خود نمائی کی رسیا پنجاب پولیس کی قیادت نے ایسے درجنوں پولیس افسران و اہلکاروں کی سینوں پر میڈلز بھی سجائے جو کرپشن اور مختلف جرائم کی وارداتوں میں براہ راست ملوث تھے۔ ایسا ہی ایک کیس مظہر اقبال عرف مظہری انسپکٹر کا بھی ہے جو پنجاب بھر اور سرحد پار منشیات فروشی کے ایک ایسے گینگ کا سرغنہ تھا جو لاہور پولیس کے اہلکاروں پر مشتمل تھا۔ اس کے خلاف انٹی نارکوٹکس فورس کی کارروائی سے کچھ عرصہ قبل ہی صوبہ کے ایک بڑے افسر نے اسے بہترین کارکردگی پر تعریفی اسناد دی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ یہ انسپکٹر اسی اعلیٰ پولیس افسر کا منظور نظر تھااور اسی کی آشیر باد سے اسے لاہور میں ڈی ایس پی انٹی نارکوٹکس کی خصوصی سیٹ پر تعینات کیا گیا تھا۔ صورت حال کس قدر بگڑ چکی ہے اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ
ماضی میں پنجاب پولیس کے ویلفیئر بجٹ کو جو اس وقت لگ بھگ سات ارب روپے سے زائد کا بتایا جاتا ہے، پنجاب پولیس کا کوئی اعلیٰ افسر غیر ضروری طور پر ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا ہے تاہم اس میں سے ایک خطیر رقم کچھ عرصہ قبل پنجاب کی ایک بڑی سیاسی شخصیت کے چین کے دورے کے دوران اُٹھنے والی اخراجات کی مد میں ادا کردی گئی۔ یقینا سیاسی آقا کو خوش رکھنے کے جہاں تک جانا پڑے جاؤ۔ اگر پنجاب میں جرائم کے گراف پر نظر دوڑائی جائے تو سرِ فہرست اضلاع میں لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، فیصل آباد، سیالکوٹ، راولپنڈی، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان آپکو دوسروں سے بازی لیجاتے نظر آتے ہیں۔ یقیناً اس کی بڑی وجہ بیشتر اضلاع میں سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والے سفارشی ڈی پی او ز ہیں جو قابلیت اور اہلیت سے عاری نظر آتے ہیں۔ تاہم اس دگرگوں صورت حال میں بھی وہاڑی، ساہیوال اور بھکر ایسے اضلاع ہے جہاں کا کرائم پر کنٹرول گراف بہتری کی جانب گامزن نظر آتا ہے۔ اسکی ایک بڑی وجہ پروفیشنل پولیسنگ اور جرائم کی بیخ کنی میں متعلقہ ڈی پی او ز کا پرو ایکٹو کردار ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت وہاڑی میں عیسٰی سکھیرا، ساہیوال میں فیصل شہزاد اور بھکر میں محمد نوید پولیس کی کمانڈ سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہاڑی اس لیے بھی دوسروں سے نمایاں نظر آتا ہے کہ یہاں ڈی پی او عیسیٰ سکھیرا کی جانب سے جدید طرز فکر کو عمل میں لاکر متعدد نئے منصوبے شروع کیے گئے ہیں جنہیں عوام میں کافی پذیرائی ملی ہے۔ تینوں پولیس افسران اچھی شہرت کے حامل پولیس افسران بھی ہیں۔ جہاں تک لاہور کا تعلق ہے تو یہاں جرائم کا گراف بلند ہونے کے باوجود مقدمات کے بعد ملزمان کی بروقت گرفتاری اور ڈی ٹیکشن ریٹ خاصا بہتر ہے۔ اسکی ایک بڑی وجہ سی سی پی لاہور بلال صدیق کمیانہ ہیں جو پروفیشنل اور مضبوط انداز میں پولیس کے نظام کو چلار ہے ہیں۔ ڈی آئی جی انوسٹیگیشن عمران کشور کے قیادت میں رواں سال سنگین جرائم کے کئی اہم کیسوں کو حل کر ان میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے۔ ڈئی آئی جی آپریشن لاہور علی رضوی بھی 9مئی کے واقعات میں زخمی ہونے کے باوجود جرائم کی بیخ کنی میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔