ہم کس دنیا میں آباد ہیں،یہ انسانی معاشرہ ہے یا جنگل،ہر طرف وحشت و چنگیزیت سر کھولے ناچ رہی ہے،انسان وحشی درندے بن چکے،انسانی جان کی کوئی قدرو اہمیت ہی نہیں،جبکہ ہم مسلمان اور پاکستان کہلاتے ہیں،اسلام نے انسانی جان کی بے پناہ حرمت بیان کی ہے”کسی ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قراردیا گیا“ المیہ مگر یہ کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو تو نظر انداز کیاہی تھا، پاکستانی قوانین کو بھی روند ڈالا،خود ہی مدعی خودہی تفتیش کار اور خودہی عدالت بن کر جلاد بھی خود ہی بن گئے ہیں، کیا ہم انسان کہلانے کے لائق ہیں؟ قانون کا احترام نہ عدالت پر اعتماد، ایسا ہی سلسلہ چلتارہا تو ایک روزتھانوں عدالتوں کو تالے لگاناپڑ جائیں گے،ویسے لگتا ہے کہ قانون اور عدالتیں بھی کچھ ایسا ہی چاہتی ہیں،پولیس تو کبھی بھی ایسے کسی واقعے کی روک تھام نہیں کر سکی۔
توہین مذہب کے مبینہ الزام میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو سیالکوٹ میں بے رحمی سے وحشیانہ اور بہیمانہ تشددکے بعد جلا کر راکھ کر دیا گیا،پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق مقتول کے جسم کی تمام ہڈیاں ٹوٹی ہوئیں اورجسم کا نوے فیصد حصہ مکمل طور پر جل چکا تھا، سری لنکا پاکستانی اندھوں کو آنکھوں کی روشنی دیتا ہے،ہم نے جواب میں موت کا اندھیرا بھیج دیا ہے؟مجھے تو اس واقعہ کے بعد نیند نہیں آ رہی، ہم پریا نتھا کے بیوی بچوں کو کیا جواب دیں گے؟ سیفما کے زیر اہتمام امتیاز عالم کی قیادت میں ہم نے سری لنکا میں آزادی صحافت کے لئے کئی کانفرنسیں منعقد کیں،سری لنکنز نے ہمیں بہت محبت اور پیار دیا،میں نے امتیاز صاحب کو فون کر کے اس واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمیں لاہور میں کسی سری لنکن کے گھر جا کر کہنا چاہئے کہ ہم شرمندہ اور معافی کے طلبگار ہیں۔ سیالکوٹ سانحہ ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے،اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں مگراس حوالے سے پولیس کا رویہ انتہائی بے رحمانہ اور غیر انسانی ہوتا ہے،عام طور پر نفری موقع پرپہنچ جاتی ہے مگر مشتعل ہجوم کوقابو کر کے تشدد کا شکار شخص کی زندگی بچانے کے بجائے خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اور جب اشتعال سردپڑ جاتا ہے یا حکا م نوٹس لیتے ہیں تب حرکت میں آتی ہے،کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ میں ہی دو حافظ قرآن طالب علم بھائیوں کو مشتعل ہجوم نے سر عام وحشیانہ تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا،حالیہ واقعہ اب تک کی معلومات کے مطابق ایک سازش لگتا ہے،تشدد کے مرکزی ملزم بھی توہین کی کوئی واضح وجہ نہیں بتاسکے۔مجھے تو ابھی تک سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ نہیں بھولا،اسی طرح سانحہ ٹوبہ بھی نہیں بھولا،جب ہم نے مسیحی بھائیوں کا پورا گاؤں ہی جلا دیا تھا۔
یہ لمحہ فکریہ ہے من حیث القوم ہم سب کیلئے،خاص طور پر دانشوروں، قانون نافذ کرنے والوں اورقانون سازی کے ذمہ دار وں کیلئے،یہ کیا المیہ نہیں کہ گزشتہ تین سال سے منتخب ارکان جن کوقوم نے ملکی قوانین کو عوام دوست بنانے کا مینڈیٹ دیا تھا وہ باہم دست و گریباں ہیں،حکومتی ذمہ داران، ملکی نظام چلانے والی بیوروکریسی سے شاکی اوربیوروکریسی حکمرانوں سے نالاں،جج اور ڈپٹی کمشنر میں بھی جنگ و جدل ہے،ایسے میں عوام کیاکریں کہاں جائیں،کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیں؟اقرباء خون کادعویٰ کس پر کریں؟خون انسانی کی ارزانی معاشرے،تہذیب تمدن،قوانین پر بہت بڑاسوالیہ نشان ہے،کسی بھی مذہب کی مقدس شخصیات،رسومات تعلیمات کی توہین نا پسندیدہ فعل ہے اور اس حوالے سے بہت واضح قوانین ہیں،تھانے اورعدالتیں ہیں،اب اگر مشتعل افرادخودہی سزائیں دینے لگ جائیں تو قانون کہاں کھڑا ہو گا،جس کی لاٹھی اس کی بھینس والاقانون رائج ہو گیا تو معاشرے کو جنگل بنانے سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔
توہینِ مذہب کے حوالے سے مروجہ قوانین کے مطابق دینِ اسلام کی توہین کرنے والے کو سزائے موت سنائی جا سکتی ہے،توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی دور میں 1860 ء میں بنائے گئے تھے اور پھر 1927 ء میں ان میں اضافہ کیا گیا،بعد ازاں ان قوانین کو مزید بہتر بنایا گیا، 1987 ء سے لے کر اب تک 633 مسلمانوں، 494 احمدیوں، 187 عیسائیوں، اور 21 ہندوؤں کے خلاف ان قوانین کے تحت مقدمات درج کئے گئے،ان میں سے زیادہ تر توہین قرآن کے مقدمات ہیں،ناقدین کا کہنا ہے ان کیسز میں اقلیتی برادری کا تناسب بہت زیادہ ہے اور اکثر ان کا استعمال ذاتی دشمنیوں اور لڑائیوں کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ان کا مذہب سے کم ہی تعلق ہوتا ہے،جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ قوانین جس شکل میں بنائے گئے وہ براہِ راست قرآن میں سے لئے گئے ہیں انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں،ان سب قوانین کی موجودگی میں لوگوں کاقانون اپنے ہاتھ میں لینا سسٹم کی ناکامی ہے۔
حالیہ واقعہ کا طائرانہ جائزہ لیں تو معلو م ہوتا ہے یہ ایک سازش تھی،مشتعل لوگوں کے پاس بہت وقت تھا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا تو پولیس سے رجوع کرتے،لیکن بجائے قانون کاسہارالینے کے خود ہی عدالت لگالی گئی،رپورٹ کے مطابق مقتول ڈسپلن کے بہت پابند تھے واقعہ سے کچھ دیرقبل ہی انہوں نے کچھ ورکرز کیخلاف ایکشن لیا تھا،وقوعہ کے روز غیر ملکی وفد فیکٹری کے دورے پرآرہا تھا،مقتول منیجرنے ورکرز کو صفائی کرنے کی ہدائت کی ایک مشین پر پوسٹر چسپاں تھا، اسے ہٹانے کا کہا مگر ورکرز نے انکار کر دیا،جس پر مقتول منیجر نے اپنے ہاتھ سے پوسٹر اتار دیا،جس پر ورکرز مشتعل ہو گئے اور مینجر کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا،یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پوسٹر اردو میں تھا اور سری لنکن مینجر اردوسے نا بلد تھا،اگر اس پوسٹر کو ہٹانے میں کوئی توہین کا پہلو تھا تو انتھا کماراس سے بے خبر تھا،یوں نادانی اور بے خبری میں کیا گیا کوئی کام توہین کے زمرے میں نہیں آتا۔
یہ کیس تفتیشی ایجنسیوں،عدالتی نظام اور پولیس کیلئے ٹیسٹ کیس ہے،سیالکوٹ کا واقعہ دراصل قومی سانحہ ہے،اس واقعہ میں صرف سری لنکن منیجر کاقتل نہیں ہوابلکہ اسلامی تعلیمات،رواداری،تحمل برداشت،ملکی قوانین کا قتل بھی ہوا اور عدالتی نظام پراعتماد بھی لہو لہو ہوگیا،عوام کی قانون نافذ کرنے والے ادارے پراعتماد کی بھی دھجیاں اڑ گئیں،آجر اوراجیر،افسراور ملازم کے رشتے کا بھی قتل ہوا،یہ وہ لمحہ ہے جب ذمہ داروں کو سر جوڑنا ہوں گے، حکومت کو نظام میں موجودخامیوں کا جائزہ لیکر انکو فوری دور کرنا ہو گا،پولیس اور عدالتی اصلاحات جنکا عرصہ سے شور و غوغا سن رہے ہیں انہیں متعارف کرانا ہو گا،عوام اور غیر ملکی شہریوں کی جان مال کے تحفظ کیلئے فوری اقدامات کرنا ہونگے۔