ملک کی معاشی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔سعودی عرب سے تیس ارب ڈالر ملنے کے بعد بھی ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے۔پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر 176تک پہنچ گیا ہے۔غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کے تین کھرب روپے ڈوب گئے جس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی اور ملک میں غریب،تاجر،صنعتکار،سرمایہ کار،کسان،سرکاری ملازم سب پریشان ہیں۔تجارتی خسارہ جولائی تا نومبر یعنی پانچ ماہ میں بیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے قرضے کے عوض حکومت نے سخت شرائط تسلیم کر لیں جس کا اعتراف خود گورنر پنجاب چودھری سرور نے لندن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا کہ آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے عوض ہمارا سب کچھ گروی رکھ لیا گیا ہے۔آئی ایم ایف کے دباؤ پر منی بجٹ آ رہا ہے جس کے تحت تین سو پچاس ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے گی۔جن اشیاء پر ٹیکس سترہ فیصد سے کم ہے ان پر بھی سیلز ٹیکس سترہ فیصد تک بڑھانے کا پروگرام ہے۔بجلی کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھنے کا امکان ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا گیا اور سٹیٹ بینک کے گورنر مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندہ رہ چکے ہیں۔ تین سال سے زائد عرصے میں تحریک انصاف حکومت نے سولہ ہزار ارب روپے سے زائد قرض لیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنے عرصے میں کسی بھی حکومت نے اتنا بھاری قرضہ نہیں لیا تھا۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ بیرونی ممالک پاکستانی سفارتخانے مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ملازمین کے لئے تنخواہیں نہیں ہیں۔سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کی گرانٹ ملنے اور آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر ملنے کے باوجود معیشت سنبھل نہیں رہی ہے۔ حکمرانوں کا
ایک ایک دن عوام پر بھاری گزر رہا ہے۔غریب عوام بدترین مہنگائی کی وجہ سے بچوں سمیت خود کشیوں پر مجبور ہیں۔ سفید پوش طبقہ گھریلو اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں۔سرکاری ملازمین کا تنخواہوں پر گزارا مشکل ہو گیا ہے۔ موجودہ حالات میں قوم ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف دیکھ رہی ہے۔ گلی، کوچوں، بازاروں، کارخانوں، دفتروں میں عوام محمد نواز شریف کے بہترین دور حکومت کو یاد کرتے ہیں جس میں مہنگائی نہیں تھی۔ عوام خوشحال تھے۔ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔
ملک کی معاشی بد حالی پر پاکستان مسلم لیگ(ن)کے صدر و قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمد شہباز شریف نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں اور نا اہلی کی وجہ سے پاکستان مہنگائی کے حوالے سے دنیا میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔اگر ہم نے مہنگائی کے خاتمے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام نہ کیا تو ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ملک میں مہنگائی کے خاتمے کے لئے حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ حکومت اپنی تمام تر توانائی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سابقہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت ختم ہونے پر پاکستان پر تیس ہزار ارب کی ادائیگی اور قرضے تھے۔مہنگائی کا تناسب تین سے چار فیصد کے اندر تھا۔اس کے برعکس موجودہ دور حکومت میں آنے والی آئی ایم ایف کی نئی شرائط نے پوری قوم کو گلے سے جکڑ لیا ہے۔جب نواز شریف نے حکومت چھوڑی تھی تو اس وقت ملک کی جی ڈی پی 5.8فیصد تھی آج جی ڈی پی سسکیاں لے رہی ہے۔عمران خان نے 2018ء میں کہا تھا کہ پاکستان کے تیس ہزار ارب کے قرضوں اور ادائیگیوں میں دس ارب روپے کی کمی کروں گا لیکن آج صرف 49ماہ میں بیس ہزار ارب روپے کے قرضے لئے گئے ہیں۔یعنی یہ قرضے پاکستان کی تاریخ میں لئے گئے قرضوں کے ستر فیصد ہیں۔ہم نے قرضے لئے تھے۔نواز شریف کی قیادت میں ملک کی ترقی اور خوشحالی کو فروغ دیا تھا۔بجلی کے منصوبے لگائے۔اندھیروں کا خاتمہ کیا۔انہوں نے کہا کہ 2008ء سے آج کا مقابلہ کیا جائے تو ڈالر 55روپے مہنگا ہو گیا ہے۔آج ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہمیں اجتماعی طور پر پاکستان کے لئے سوچنا ہو گا۔ملک سب سے اہم ہوتا ہے۔اگر یہی حالات رہے تو پاکستان کو دفاع کیلئے قرض لینا پڑیں گے۔حکمرانوں کی معاشی پالیسیاں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔بنگلہ دیش معاشی لحاظ سے پاکستان سے آگے نکل گیا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کو بدترین مہنگائی اور بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا۔شہباز شریف کی پریس کانفرنس قوم کے احساسات و جذبات کی ترجمان ہے کیونکہ عوام بدترین مہنگائی کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں اور عوام شہباز شریف کی خدمت کی سیاست کو نہیں بھولے ہیں۔
معاشی بدحالی کا حکومتی اعتراف
09:23 AM, 6 Dec, 2021