وزیرِ اعظم جناب عمران خان کے کچھ ہی عرصہ قبل دورہ سعودی عرب کے موقع پر یہ خوش کن اعلان سامنے آیا تھا کہ سعودی عرب تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھوائے گا اور اس کے علاوہ پاکستان کو اُدھار پر تیل بھی مہیا کرے گا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ سعودی عرب کا دفاعی تحفظ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ جناب عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر اُصولی طور پر طے پانے والے ان اقدامات میں سے سعودی عرب کیاسٹیٹ بینک آ ف پاکستان میں تین ارب ڈالر کا ڈیپازٹ رکھنے کے بارے میں سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ اورسٹیٹ بینک آف پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کے دفاعی تحفظ کے بارے میں کیے جانے والے اقدامات یا فیصلوں کی کوئی تفصیل ابھی تک سامنے نہیں آئی، البتہ وفاقی وزارتِ خزانہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سعودی ڈیپازٹ اور تیل ادھار دینے کی سہولت کے بارے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے گی۔
وفاقی وزارتِ خزانہ کی طرف سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ان کیمرہ بریفنگ میں کیا بتایا جائے گا یہ بعد کی بات ہے۔ اس وقت سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ اور سٹیٹ بینک کے درمیان تین ارب ڈالر کے ڈیپازٹ ایک سال تک سٹیٹ بنک آف پاکستان میں رکھنے یا جمع کرانے کے حوالے سے طے پانے والے تحریری معاہدے کی شرائط سامنے آ چکی ہیں۔ ان شرائط کو دیکھ کر کسی تردد کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں بھی سعودی عرب پاکستان کو امداد، گرانٹس، قرض، ڈیپازٹ اور اُدھار تیل دیتا رہا ہے لیکن اس طرح کی کڑی شرائط کبھی بھی عائد نہیں کیں۔ سعود ی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ان شرائط کو دیکھ کر یہ لگتا نہیں کہ ایک برادر اسلامی ملک کی طرف سے ایسی سخت شرائط عائد کی جا سکتی ہیں یا ان شرائط کے تحت پاکستان کے لیے ڈیفالٹ کا لفظ بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی جو شرائط سامنے آئی ہیں ان کے بارے میں واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے یہ شرائط کمرشل بنیادوں پر طے کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق شرح سود 4% رکھی گئی ہے جبکہ 2018ء میں عمران حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سعودی عرب نے جو تین ارب ڈالر ادھار دیے تھے یا سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھوائے گئے تھے ان کی شرح سود 3.15%تھی۔ موجودہ معاہدے میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ سعودی عرب بغیرکوئی وجہ بتائے 72گھنٹوں کے نوٹس پر اپنی رقم واپس لے سکے گا جبکہ پچھلے معاہدے میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی۔ اسی طرح ایک اور شرط یہ ہے کہ 12ماہ کے بعد معاہدے میں توسیع نہیں ہوگی۔ جبکہ پچھلے معاہدے میں توسیع کی گنجائش موجود تھی۔ موجودہ معاہدے کی جس شرط کو سب سے زیادہ کڑی اور ایک لحاظ سے ہتک آمیز سمجھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے قرض یا ڈیپازٹ کو پہلی بار آئی ایم ایف (IMF)سے جوڑا گیا ہے اور کہا گیا ہے پاکستان اگر آئی ایم ایف کی رکنیت چھوڑتا ہے تو ڈیفالٹ سمجھا جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی پیمنٹ میں تاخیر ہوتی ہے یا شرح سود کے مطابق ادائیگی نہیں ہوتی تو تب بھی پاکستان ڈیفالٹ ہوگا۔اس معاہدے کے تحت ایک اور شرط بھی ایسی ہے جس سے پاکستان کے عدالتی نظام پر عدمِ اعتماد کا اظہار سامنے آتا ہے۔ معاہدے کے تحت کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو اس کا تصفیہ سعودی قوانین کی روشنی میں کیا جائے گا۔
سعودی عرب کی طرف سے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں تین ارب ڈالر کے ڈیپازٹ رکھوانے یا اُدھار تیل دینے کے حوالے سے معاہدے کی شرائط بلا شبہ انتہائی کڑی اور عشروں سے دونوں ممالک کے درمیان قائم گہرے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کے منافی ہیں۔ سعودی عرب سے ہمارے تعلقات برابری کی سطح پر ضرور ہیں لیکن ان میں پاکستان کے عوام کی طرف سے بالخصوص اور کم و بیش ہر دور کے پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے بالعموم سعودی عرب کے لیے گہری محبت، عقیدت اور گرم جوشی کا اظہار بھی سامنے آتا رہا ہے۔ اس کے جواب میں خادم حرمین شریف شاہ فیصل شہید ہوں، شاہ خالد مرحوم ہوں، شاہ فہد مرحوم ہوں یا شاہ عبداللہ مرحوم کا طویل دورِ حکمرانی ہو، پاکستان کو ہر دور میں سعودی حکمران اپنا دست و بازو اور انتہائی مخلص اور قریبی دوست ہی سمجھتے رہے ہیں بلکہ کھل کر پاکستان کی دامِے، درمے اور سُخنے مدد اور تائید بھی کرتے رہے ہیں۔ پچھلے ایک آدھ عشرہ کو چھوڑ کر اس سے پہلے تین چار عشروں کے دوران کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب پاکستان اور سعودی عرب شانہ بشانہ کھڑے نہ رہے ہوں یا اُن کے درمیان گہرے دوستانہ یا برادرانہ روابط مستحکم نہ رہے ہوں۔
یہاں زیادہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، پچھلے صدی کے ستر کے عشرے میں بالخصوص دسمبر 1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد سعودی عرب کے فرماں رواں خامِ حرمین شریفین شاہ فیصل شہید تھے جنہوں نے شکست خوردہ پاکستان کی بحالی اور مضبوطی میں پاکستان کی ہر پہلو سے مدد، معاونت اور سرپرستی کی۔ ان کی شہادت کے بعد شاہ خالد حکمران بنے۔ وہ 1976ء کے اواخر میں پاکستان کے دورے پر آئے تو انہوں نے اسلام آباد میں پاکستان کے دارالحکومت کے شایاں نشان ایک عظیم و شان مسجد بنوانے کا اعلان کیا جو فیصل مسجد کی صورت میں مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں اپنے بلند و بالا میناروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ شاہ خالد کے بعد شاہ فہد نے سعودی فرماں روا اور خادم حرمین شریفین کا منصب سنبھالا تو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گہرے برادرانہ تعلقات کے ساتھ سٹریٹیجک سطح پر بھی تعلقات قائم رہے۔ خادمِ حرمین شریفین کا دور آیا تو تعلقات میں مزید گہرائی پیدا ہو گئی۔ 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکی صدر بل کلنٹن کی ایما پر عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو مشکل کی اس گھڑی میں شاہ عبداللہ کی حکومت نے ہماری مالی مدد ہی نہ کی بلکہ اُدھار تیل بھی فراہم کرتی رہی۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے، مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد میاں محمد نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی نا قابل واپسی خطیر رقم بطورِ تحفہ حکومتِ پاکستان کو پیش کی۔ اسی دوران سعودی عرب اور یمن کی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان تنازع اُٹھ کھڑا ہوا تو سعودی عرب ہم سے باغیوں کے خلاف کیے جانے والے فوجی اور دفاعی اقدامات کی صورت میں بھرپور تعاون اور مدد کی توقع رکھتا تھا لیکن ہم نے سعودی عرب کی عملی مدد کرنے کے بجائے حیل و حجت سے کام لیا جس کی بنا پر سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یہ منفی اثرات اب تک کسی نہ کسی صورت میں قائم چلے آ رہے ہیں۔ 2018ء میں عمران خان برسراقتدار آئے تو ان کی حکومت کی مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب نے تین ارب ڈالرسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ضرور رکھوائے لیکن ان کے واپس لینے کے لیے جو لائحہ عمل اختیار کیا اس سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں مزید تلخی در آئی۔ اب جو نیا معاہدہ طے پایا ہے اس کی شرائط بلاشبہ انتہائی کڑی ہیں اور اس کے نتیجے میں جو مزید سرد مہری سامنے آسکتی ہے اس کا اندازہ لگانہ شائد اس وقت ممکن نہ ہو۔