سائوتھ ایسٹ چائنہ کے ساحلوں سے 100 میل دور واقع تائیوان، امریکہ اور چین کے مابین وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ سترھویں صدی میں گوانک شہنشاہی کے دور میں، تائیوان چینی تسلط میں آیا پھر 1895 میں چین جاپان جنگ میں شکست کھا جانے کے بعد تائیوان پر جاپانی تسلط قائم ہو گیا۔ 1945 میں جب جاپان کو دوسری عالمی جنگ میں شکست ہو گئی تو تائیوان پر ایک بار پھر چین کا قبضہ ہو گیا۔ اسی دوران چین میں چیانگ کائی شیک کی نیشنلسٹ حکومت کی فوج اور مائوزے تنگ کی کمیونسٹ پارٹی کے درمیان سول وار شروع ہو گئی جو 1949 میں مائو کی قیادت میں لڑنے والے کمیونسٹوں کی فتح پر منتج ہوئی۔ چیانگ کائی شیک اور نیشنلسٹ پارٹی کی باقیات پر مشتمل قومین ٹنگ نے شکست کھانے کے بعد بھاگ کر تائیوان میں پناہ لی اور وہاں کئی دہائیوں تک حکومت کی۔
تاریخی اعتبار سے تائیوان چین کا حصہ رہا ہے۔ تائیوان اسی تاریخ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ کبھی جدید چین ریاست کا حصہ نہیں رہے ہیں وہ جب پہلی بار 1911 میں انقلاب کے بعد قائم ہوئی یا جب 1949 کے مائو انقلاب میں پیپلز ریپبلک آف چائنہ قائم ہوئی۔ قومینٹنگ تائیوان کی بڑی سیاسی پارٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ ویٹی کن سمیت دنیا کے 13 ممالک نے تائیوان کو تسلیم کر رکھا ہے۔ چین اس حوالے سے اقوام عالم پر دبائو ڈالتا رہتا ہے کہ تائیوان کو تسلیم نہ کیا جائے کیونکہ وہ چین کا حصہ ہے ناکہ ایک آزاد ملک۔
تائیوان، فون سے لے کر لیپ ٹاپ، کھلونے، کھلونوں کے ورک سٹیشن اور گھڑیوں تک، ہر قسم کے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل آلات بشمول کمپیوٹر اور اس میں استعمال ہونے والی چپ بنانے کی عالمی منڈی کا بہت بڑا کھلاڑی ہے۔ سول اور ملٹری شعبوں میں استعمال ہونے والی اس چپ کی صنعت کا حجم 100 ارب ڈالر سے زائد ہے اور شعبہ جاتی پیداوار میں تائیوان کا حصہ 65 فیصد سے زائد ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ تائیوان پر چینی کنٹرول کا مطلب، چپ انڈسٹری پر چینی کنٹرول ہے۔ امریکہ، تائیوان کے مسئلے پر چین کے ساتھ ایک عرصے سے کشیدگی کی صورت حال کا شکار رہا ہے حال ہی میں بائیڈن ایڈمنسٹریشن کے انتہائی اعلیٰ عہدیداران کے دورہ تائیوان کے باعث معاملات میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ امریکہ چین کو کئی بار کہہ چکا ہے کہ تائیوان کی حیثیت بدلنے کے لئے قوت کے استعمال سے اجتناب کیا جائے لیکن اب صورت حال بدلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
چین نے پلوسی و دیگر اہلکاروں کے دورہ تائیوان کے بعد امریکی انتظامیہ کو سفارتی سطح پر خطرناک نتائج کی دھمکی دے ڈالی ہے اور اس کے ساتھ ہی تائیوان کی مکمل ناکہ بندی کا سامان بھی کرنا شروع کر دیا ہے ایسے لگ رہا ہے اور چین اب تائیوان کو اس کی اصلی جگہ تک لے جائے گا یعنی اس پر قبضہ یا کنٹرول حاصل کر لے گا۔ جہاں تک تعلق
ہے چین اور تائیوان کی عسکری و دفاعی صلاحیتوں کا تو اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین عددی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ جدت کے اعتبار سے بھی، تائیوان سے بہت آگے ہے عسکری تصادم کی صورت میں چین کی برتری اور فتح یقینی ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں معاملات چین تائیوان تصادم سے آگے بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں چین نے براہ راست امریکہ کو دھمکی دی ہے اور تائیوان کی ناکہ بندی شروع کر دی ہے۔ یہ معاملہ ذرا گمبھیر ہوتا نظر آ رہا ہے۔
یہ معاملہ عالمی چپ انڈسٹری پر چھا جانے کا نہیں ہے بلکہ عالمی قیادت کا بھی ہے اگر چین تائیوان پر قبضہ کر لیتا ہے تو امریکہ کی ایشیا میں پوزیشن کیا رہ جائے گی۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے پست درجے پر فائز ہو چکا ہو گا ۔ مشرق میں اس کے اتحاد کا ڈھانچہ کہیں نظر نہیں آئے گا۔ فرض کریں چین بالفعل تائیوان پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو کیا وہ یہیں تک رہے گا۔ کیا وہ جنوبی کوریا اور جاپان سمیت دیگر ممالک میں اپنے مفادات کی آبیاری کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی نیوی کے ساتھ مغربی پیسفک پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ چینی حکومت اس حوالے سے کھلے عام کچھ نہیں کہتی تاکہ دیگر ممالک کے کان ہی کھڑے نہ ہو جائیں ۔ لیکن ایسا ہونا ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی بھی ہو سکتا ہے۔
چین ایک حقیقی عالمی طاقت بن چکا ہے۔ امریکہ کے ساتھ کسی قسم کے تصادم کی صورت میں اسے ’’کیا کرنا ہے، کب کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے‘‘ سب پتا ہے اس کی منصوبہ بندی واضح ہے۔ چین امریکی کمیونیکیشن کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی سیٹلائٹ پر سائبر حملے کے ذریعے امریکی افواج کی چین کی افواج اور عسکری تنصیبات پر حملے کی صلاحیت صلب کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے چین ایک عرصے سے ٹھوس تیاریاں کرتا رہا ہے۔ چین نے انڈو۔پیسفک ریجن میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے، تباہ کرنے کے لئے بھی تیاریاں کر رکھی ہیں۔ جدید ترین میزائلوں سے لیس چینی تنصیبات اس تیاری کا ثبوت ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چین اپنی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور عسکری قوت کے عملی اظہار میں کمزوری نہیں دکھائے گا۔ امریکہ گو چین کے عالمی منظر پر چھا جانے کی کاوشوں کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہا ہے لیکن چین تصادم کی پالیسی سے بچتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ چین کسی بھی ایشو پر سخت ترین موقف اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کرتا رہا ہے لیکن تائیوان کا ایشو خاصا آگے بڑھ چکا ہے یہاں چین کو اپنا عسکری بازو آزمانا ہو گااور چین اس حوالے سے یکسو نظر آ رہا ہے۔
سوال چین امریکہ تصادم سے زیادہ، ہمارے لئے اہم ہے کہ جنگ کی صورت میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ ہم امریکی اتحادی بننے پر مجبور ہیں۔ ہم نے امریکی اطاعت کا چولا 50 کی دہائی سے پہن رکھا ہے۔ ہم سیٹو، سینٹو کا بھی حصہ رہے ہیں ہم سوویت یونین کے خلاف، افغانستان میں گرم جنگ کا حصہ بھی رہے ہم نے 20 سال تک دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ بھی امریکی حلیف کے طور پر لڑی۔ 70 ہزار انسانی جانوں کی قربانی، معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ سماجی ابتری بھی قبول کی۔ 100 ارب ڈالر کا نقصان بھی اٹھایا۔ آج ہم جس معاشی و معاشرتی گرداب کا شکار ہیں تو اس میں ’’ہمارا امریکی حلیف‘‘ ہونا بھی شامل ہے۔ گزری ایک دو دہائیوں سے ہم چینی حلیف بننے کی کاوشیں بھی کر رہے ہیں۔ سی پیک کو گیم چینجر بھی بنا چکے ہیں اس پراجیکٹ کے تحت چین یہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر چکا ہے۔ گوادر پورٹ فعال بھی ہو چکی ہے۔ سفارتی سطح پر بھی چین ہمارے فعال دوست کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایسے میں ہمیں اگر کسی ایک کا ساتھ دینا پڑا تو ہم کیا کریں گے؟ ہماری قومی حکمت عملی کیا ہو گی؟ کیا ہم نے اس بارے میں جاننے، سمجھنے اور سوچنے کی تھوڑی بہت بھی کوشش کی ہے؟