میں نے گزشتہ 26 سال میں جتنا سفرتحریک انصاف کیلئے صرف پاکستان میں کیا ہے اگر زمین کے گرد چکر لگاتا تو شاید سات چکرپورے ہوچکے ہوتے ۔وائس ایڈمرل (ر)جاوید اقبال تحریک انصاف پنجاب کے صدر بھی رہے اورتحریک کے وائس چیئرمین بھی ۔ اکثراُن کا ایک جملہ آج بھی ذہن کی مومی تختی پر بہت گہرا چھپا ہے کہ ’’سہاگن وہی جو پیا من بھائے ۔‘‘وہ اکثر کسی نالائق شخص کی تحریک انصاف میں اہم عہدہ پرہونے والی تعیناتی بارے ایسے ہی اظہارکیا کرتے تھے پھر عمرانی عہد میں تو اس جملے کا بار باریاد آنا فطری بات ہے ۔ انہوں نے 2004 ء میں پاکستان تحریک انصاف جوائن کی اور پھر 14 ظفر علی روڈ لاہور پر اپنی کنالوں پر پھیلی کوٹھی تحریک انصاف کیلئے وقف کردی اورحقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کیلئے اُن کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر ایک دن وہ بھی عمران خان کے زیرعتاب آ گئے ۔عمر ایوب نے تحریک انصاف جوائن کی تو چند دن بعد کسی نیوز چینل پر ایڈمرل جاوید اقبال نے آرٹیکل 6 پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اِس کا اطلاق ہمیں ایوب خان سے کرنا ہو گا۔‘‘ بس پھر کیا تھا عمر ایوب نے چیئرمین تحریک انصاف کو فون کرکے نہ جانے کن الفاظ میں واقعہ کی روداد سنائی جس پرعمران نے جاوید اقبال سے اس پرلائیو معذرت کرنے کیلئے کہا لیکن ایڈمرل بہادرکا موقف تھا کہ ’’یہ حوالہ میں نے جنرل موسی کی کتاب ’’جوان سے جرنیل تک‘‘ سے دیا تھا۔میری معذرت سے یہ حوالہ اس تاریخی کتاب سے ختم نہیں ہوگا۔‘‘ اب بات نیازی پٹھان اورجالندھری جرنیل کے درمیان ٹھن گئی تھی چونکہ فیصلے کا اختیار عمران خان کے پاس تھا سو جاوید اقبال کو پارٹی سے فارغ کردیا گیا ۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی انتہائی ضروری کہ اُس وقت میاں محمود الرشید جو عمران خان کو’’ مردہ گھوڑا ‘‘ کہہ کر1997 کے آخری ایام میں پارٹی چھوڑ چکے تھے ٗ پنجاب کے اُس وقت کے صدر احسن رشید کی مہربانی سے پہلے پارٹی میں واپس آئے اورپھر براق کی رفتار سے عمران خان تک رسائی حاصل کرتے چلے گئے۔تحریک انصاف میں جماعت اسلامی سے کرپشن کی بنیاد پر نکالے ہوئے سابقون کا ’’دخول ‘‘ شروع ہو گیا ۔ 30 اکتوبر کے تاریخی جلسہ سے پہلے عبد العلیم خان نے تحریک انصاف جوائن نہیں کی تھی لیکن فنڈنگ شروع کر دی تھی اوراس تاریخی جلسے کے بھی تمام اخراجات عبد العلیم خان نے ہی برداشت کیے ۔ جلسہ سے ایک دن پہلے رات کو جب میں مینار پاکستان تحریکی دوستوں کے ساتھ انتظامات کا جائزہ لینے پہنچا تو میری ملاقات پہلی بارشعیب صدیقی اور چودھری فراز سے ہوئی ۔ فنڈز کے بارے میں،میں پہلے ہی
جانتا تھا سو اب اگلہ منظرنامہ میرے سامنے تھا ۔
دسمبر 2011 ء میں عمران خان نے میریٹ ہوٹل اسلام آباد بلا کرسب ورکروں کو کھلا پیغام دے دیا کہ آپ کو نئے آنے والوں کو قبول کرنا ہوگا جس کو قبول نہیں اس کیلئے پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں ۔ اب ورکرز کیا کرتے اُن کی جدوجہد کا یہ 15 واں سال تھا آگے آگ پیچھے کھائی والا معاملہ ہو گیا تھا ۔ میں نے اُس دن پہلی بار تحریک انصاف کے ورکروں کو عمران کے رویے پرآنسووں سے روتے دیکھا لیکن دوستوں کے ایک دوسرے کوتسلی دینے سے بات پھر آگے چل پڑی۔جن دنوں وائس ایڈمرل(ر) اقبال پنجاب کے صدر تھے اُن دنوں میں پنجاب یوتھ کا صدر اورماسٹر پولیٹکل ٹرینر تھا ۔مجھے یاد ہے اُس زمانے میں اکثرمیں لاہور ہفتوں بعد پہنچتا تھا ۔ایک ضلع سے دوسرے ضلع اور ایک تحصیل سے دوسری تحصیل جہاں پولیٹکل ٹریننگ کی کلاسیں ہوا کرتی تھیں ۔ اس دوران بہت سے نایاب گوہرمقصود بھی ہاتھ لگے جو آج بھی انتہائی ذمہ دار شہری کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔جاوید اقبال صاحب سے آغازمیں تو میری نہیں بنی لیکن جب بہت دن ہم نے اکٹھے گزار لیے تو مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ وہ انتہائی زیر ک اور باکمال استاد ہیں ۔تاریخ ٗ عالمی سیاست ٗ پاکستان میں اداروں کا ارتقا اور پاکستان کے بہت سے اچھے برے واقعات کے وہ چشم دید گواہ تھے ۔اُن سے گھنٹوں ملاقات رہنا شروع ہوگئی اورمجھے اُن کے قرب میں ایک شفیق استاد کااحساس ہونا شروع ہو گیا ۔ میں آج انتہائی ذمہ داری سے لکھ رہاہوں کہ میں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا جس میں سیاسی تاریخ کے علاوہ بحری جنگ کے اسرارو رموز سے واقفیت حاصل کی جس کی وجہ سے مجھے بمبے بم دھماکوں کی فوری سمجھ آ گئی ۔ میں نے اُن سے نقشہ پڑھنا (Map Reading)سیکھا جس سے مجھے انسانی تاریخ کے بڑے حملہ آوروں کے رستوں اور مقاصد بارے سمجھنے میں نہ صرف آسانی ہو گئی بلکہ مجھے اُن حملوں بارے اپنے نقطہ نظر سے بھی رجوع کرنا پڑا ۔ استاد محترم وائس ایڈمرل (ر)جاوید اقبال پاکستان کی ذات برادریوںبارے انتہائی وسیع علم رکھتے تھے جس سے مجھے مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملا ۔ تحریک انصاف نے ان سے اورانہوں نے تحریک انصاف سے تعلق ختم کر لیا لیکن میرا اُن سے تعلق ختم نہ ہوا وہ صاف گو اوربہاد ر آدمی تھے ۔ انہوں نے ضیا الحق کے منہ پر اُس کی فوجی بغاوت کی وجہ پوچھی اورمشرف کے ’ کو‘ پر اسے ایک سخت اوردلچسپ میل کی جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’ نکاح کے بغیربچے کی حیثیت شرعی نہیں ہوتی ۔‘‘میں نے یہ ترجمہ اپنی یاداشت کی بنیاد پر کیا ہے اس میں کوئی کم بیشی ہو سکتی ہے لیکن مفہوم یہی تھا ۔
روسائے پنجاب کی دونوں جلدیں میرے سامنے پڑی ہیں اورمیں ابھی شاہ محمود قریشی کے خاندان کی تاجدارِ برطانیہ کیلئے 1857ء میں فراہم کی گئی خدمات بارے پڑھکرفارغ ہوا ہوں ۔اُس وقت بھی اس خاندان کا سربراہ شاہ محمود قریشی نامی بدبخت شخص تھا جو مجاہدین کے قتل و غارت میں اہلِ برطانیہ کا وفادار تھا ۔ شاہ محمود کے والد ِ محترم سجاد حسین قریشی جنہیں لوگ اللہ کریسی کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔انہیں اللہ کریسی اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص پنجاب سے اُن کے پاس کسی کام کی غرض سے پہنچتا تووہ دعا کراتے اور سرائیکی میں کہتے کہ’’ اللہ کریسی ‘‘ یعنی اللہ کرے گا سو لوگوں نے اُن کا نام ڈیموکریسی کے وزن پراللہ کریسی رکھ دیا ۔وہ ضیا الحق کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور1980ء سے 1985ء تک پنجاب کے گورنر رہے لیکن بعد ازاں اپنے بیٹے شاہ محمود قریشی کوملتان سے ممبرپنجاب اسمبلی بنوا کر سیاست سے رخصت ہو گئے لیکن شاہ محمود قریشی نواز شریف سے مل گئے اوریہ سفربھی 1993ء تک رہا ۔نواز حکومت ختم ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلز پارٹی میں چلے گئے اوربیس سال وہا ں گزارنے اوروزارتوں کے مزے لوٹنے کے بعدامریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ریمنڈڈیوس کیس میں اپنی سفارتی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے پرپیپلز پارٹی سے علیحدہ ہو گئے اورپھر پاکستان تحریک انصاف اُن کی سیاسی جماعت ٹھہری جہاں اُن کے ایچیسن کالج کے دوست عمران خان اُن کے منتظر تھے ۔
عمران خان نے عمر بھر کہا کہ وہ کسی سے بلیک میل نہیں ہو ں گے لیکن شاہ محمود قریشی کو لائلپورکا گھنٹہ گھر بنا کررکھا ہوا ہے آپ کسی رستے سے جائیں وہی سامنے نظر آتاہے ۔ وہ تحریک انصاف کی حکومت میں پارٹی کے وائس چیئرمین ہونے کے علاوہ وزیرخارجہ بھی رہے ۔حالیہ ضمنی الیکشن میں بیٹے کو ملتان سے ٹکٹ دلوایا اورالیکشن کے دوران اپنی سابق پنجاب اسمبلی کی نشست سے شکست کا ذمہ دار تحریک انصاف کو قرار دیا اوراب قومی اسمبلی کے انتخاب کیلئے اپنی بیٹی کو میدان میں لے آئے ہیں جس سے یہ بات تو ظاہرہو گئی کہ عمران خان کے پاس ملتان میں سوائے شاہ محمود فیملی کے اورکوئی قابلِ اعتماد ساتھی نہیں ۔ میں آج سوچتا ہوں کہ تحریک انصاف کے وہ ورکرز جو ہمیں ملتان میں سالہا سال اُس وقت خوش آمدید کہتے رہے ہیں جب شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی کے وزیر خارجہ تھے کدھرگئے لیکن پھرسوچتا ہوں عمران نیازی نے سارے پنجاب میں ہی ورکروں کا جنازہ نکال کررکھ دیا ہے ۔عمران خان اپنے طاقتور ساتھیوں سے بلیک میل ہورہا ہے جبکہ کمزور ساتھیوں کا سیاسی قتل کر رہا ہے لیکن اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ قریشی ہو یا اسد عمر یہ مصیبت کی وجہ توبن سکتے ہیں مصیبت کے ساتھی ہرگز نہیں ۔