تائیوان کی صدرسائی انگ وین نے چین کے خلا ف ڈٹے رہنے کا اعلان ایسے وقت کیا جب امریکی سپیکر نینسی پیلوسی تائیوان کے دورے پر تھیں اسی لیے سفارتی حلقے اِس اعلان کو معنی خیز قرار دیتے ہیں جس طرح روس و یوکرین کے مابین جاری جنگ میں امریکی کردار جھٹلایا نہیں جا سکتا ویساہی کردار کیا آبنائے تائیوان میں وہ دُہرا رہا ہے؟اِس سوال کے جواب میں ہاں کہے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن جس طرح روس کے مقابلے میں یوکرین کی فوجی طاقت کا موازنہ کرنا اور مساوی قرار دینا بچگانہ اندازہ ثابت ہو چکا اُسی طرح چین اور تائیوان کی دفاعی طاقت میں بھی غیر معمولی تفاوت ہے جب سائی انگ وین ڈٹے رہنے کا عزم کرتے ہوئے فوجی خطرات کے باوجود دفاعی کوششیں جاری رکھنے کا اعلان کرتی ہیں تو دفاعی ماہرین ایسے اعلان کو خودکشی کی تیاری قرار دیتے ہیں کیونکہ تائیوان میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ چینی فوجی کارروائی کی صورت میں ایک دن بھی مقابلے پر ٹھہر سکے توپھرسوچنے والی بات یہ ہے کہ امریکی مقاصد کیا ہیں کہ وہ چین کو کسی نہ کسی صورت میں تائیوان پر حملے کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے؟دراصل مشرقِ وسطٰی ،افغانستان سمیت مختلف خطوں میں فوجی کارروائیوں سے وہ خود تو معاشی طور پر رو بہ زوال ہے اور کوئی دوسرا ملک اُس سے زیادہ معاشی طورپر مستحکم ہو اُسے گوارا نہیں بلکہ وہ دنیا کو ماتحت دیکھنے کا متمنی ہے اسی لیے نت نئے تنازعات کو ہوا دے رہا ہے تاکہ دیگر طاقتیں تنازعات میں الجھ کر معاشی طاقت نہ بن سکیں۔
نینسی پیلوسی کے تائیوان دورے کی خبریں جب ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہوئیں تو چین نے ایسی کسی حرکت پر سخت ناپسندیدگی ظاہر کی اور سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے اشتعال انگیزی قرار دیاحالانکہ روس جیسی اکثر عالمی طاقتیںایک چین پالیسی تسلیم کرتی اور امریکہ کو تنازعات بڑھانے سے باز رہنے مشورہ دیتی ہیں چین اور روس کے شدید ردِ عمل کی بنا پر ہی ابتدا میں چند دن تک دورہ نہ ہونے کی خبریں سامنے آئیں لیکن اِس کے باوجود تائیوان میں خیر مقدمی تیاریاں جاری رہیں جس سے وعدوں اور اِرادوں میںتضاد کاتاثرپیداہوا پھرملائیشیا سے طیارے نے اُڑان بھرنے کے بعد تائیوان کی سرزمین کو چھواتو ذرائع ابلاغ کے اندازے غلط ثابت ہوئے سپیکر کی تائی پے آمد کے دوران چین مخالف رہنمائوں سے ملاقاتیں کرنا چینی قیادت کو
چڑانے کے مترادف ہیں میزبان تائیوانی صدر جب مشکل وقت میں ساتھ دینے اور ٹھوس اقدامات پر نینسی پیلوسی کا شکریہ ادا کرتی ہیں اور جواب میں مہمان سپیکر یقین دہانی کراتی ہیں کہ امریکہ تائیوان کوکبھی تنہا نہیں چھوڑے گا تو یہ ایسے ہی ہے جب کوئی دوست ہونے کا دعویدار اپنے دوست کوبے فکرہوکر کنویں میں چھلانگ لگانے کا مشور ہ دیتے ہوئے یہ یقین دلائے کہ ایسا کرنے سے نقصان نہیں ہو گامحض اپنی معیشت کو لاحق خطرات دور کرنے کے لیے تائیوان کو چین کے مقابلے پر کھڑا کیا جارہا ہے یہ ایک اور محاذ کو ہوا دینے کے مترادف ہے اگرحریف ریاستوں کی معیشت ناہموار کرنے کی سازشیں کی جائیں گی تو امریکی شہ دماغ ذہن میں بٹھا لیں کہ ایسا کرنے سے اقوامِ عالم میں معاشی ناہمواری اور غربت میں اضافہ ہونے کے ساتھ دنیا جنگ وجدل کا میدان بن کر رہ جائے گی۔
کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو یہ ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ اُس کی وحدت کو خطرے میں ڈالے مگر امریکی کسی کی آزادی و خود مختاری کا احترام کرنے کے بجائے ہر جگہ من مانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ بقائے باہمی کااصول ہی پُر امن دنیا کی ضمانت ہے چین کی وحدت کے خلاف امریکہ متحرک ہے اور تائیوان کو چین سے الگ ہونے کے مشورے دے رہا ہے جس سے ایک اوربڑا محاذ کُھلنے کا خدشہ ہے بدھ کے روز نینسی پیلوسی جب اپنی اگلی منزل جنوبی کوریا کے لیے روانہ ہورہی تھیں تو جواب میں چین نے نہ صرف آبنائے تائیوان میں فوجی مشقوں کی تیاری کرتے ہوئے تائیوان کو گھیرنا شروع کر دیا بلکہ امریکی سے سفارتی کشیدگی بھی بڑھ گئی ہے جس سے دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ خطے میں کشیدگی غیر معمولی طورپر عروج کو پہنچ چکی ہے آبنائے تائیوان میں چین اور امریکہ کے فوجی بیڑے آمنے سامنے تیار ہونے کی بناپر امن پسند حلقے اضطراب کا شکار ہیں اور موجودہ صورتحال کو ایک اور محاذ کُھلنے سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ امریکی عدمِ تعاون ہے خطرے کا ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جی سیون ممالک کے گروپ نے چین سے تحمل کا مطالبہ کرتے ہوئے آبنائے تائیوان میں جارحانہ فوجی مشقوں کو بلاجواز تو قرار دیا ہے مگروہ امریکہ سے ایسا مطالبہ نہیں کرتے چین اپنی وحدت پر سمجھوتہ کرلے ایسا کوئی امکان نہیں بلکہ ہانگ کانگ واپس لینے کی طرح وہ انتظار تو کر سکتا ہے مگر کسی حصے کی مستقل علیحدگی کو برداشت نہیں کر سکتاویسے بھی اگر تائیوان میں علیحدگی پسندوں کی بڑی تعداد ہے تو جنگ مخالف بھی موجود ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ تائی پے میں امریکی سپیکر نے جس ہوٹل میں قیام کیا اُ س کے باہر جنگ کے مخالفین نے نینسی پیلوسی سے واپس جانے کا مطالبہ کیا یہ پیغام ہے کہ چین فوجی کے ساتھ ساتھ پراکسی لڑائی لڑنے کے لیے بھی تیار ہے اِس لیے ایک اور محاذکھول کرانسانی جانوں کے لیے خطرات میں اضافہ کرنے کے سوا امریکہ کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا تجارتی جنگ کا بدلا فوجی لڑائی تک نہیں جانا چاہیے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر دورہ ایشیا کے دوران جب تائی پے پہنچیں تو اُن کا بہترین خیر مقدم کیا گیا مہمان کا تائیوان کی پارلیمنٹ سے خطاب بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے کسی اعلٰی امریکی عہدیدار کا گزرے پچیس برس میں تائیوان کا یہ پہلا دورہ ہے مگر اِس دورے سے خطے کا بھلا نہیں ہوا بلکہ جنگ کے امکان پیدابڑھے ہیں چین نے اِس دورے پر غیر معمولی ردِ عمل دیا ہے نہ صرف امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا بلکہ نینسی پیلوسی کے جنوبی کوریا روانگی کے اگلے دن ہی فوجی نقل و حمل سے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی خود مختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لیے آخری حد تک بھی جانے کو تیار ہے وہ اِس دورے کو آگ سے کھیلنے کے مترادف قرار دیتاہے چین جیسی طاقت جسے ویٹوکا حق حاصل ہے پر تائیوان جو اقوامِ متحدہ کا باضابطہ ممبر بھی نہیں کو ترجیح دیکر امریکی قیادت نے کوئی دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیاچینی حکام تو تائیوانی شہریوں کو کاروباری و دیگر سرگرمیوں کے لیے پاسپورٹ کی بجائے ایک خصوصی اجازت نامہ جاری کرتے ہیں حالیہ کشیدگی کے بعد چین نے تائیوانی درآمدات و برآمدات پربھی پابندیاں لگا دی ہیں تمام خطرات کے باوجود بظاہر امریکی جزائر تائیوان کاتحفظ کرنے کا یقین دلا تے ہوئے کہتے ہیں کہ چین کی طرف سے کسی فوجی کارروائی کی صورت میںوہ غیر جانبدار نہیں رہے گا لیکن چینی حکام کے اشتعال سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ ہر حد تک جانے اور نہ صرف ہر خطرے سے ٹکرانے کو تیار ہے بلکہ وحدت و سالمیت کے لیے خطرہ بننے والے عناصرکو سبق سکھانے کا بھی تہیہ کر چکا ہے جب دنیا میں پہلے ہی تنازعات کی بھر مارہے اور کئی محاذ گرم ہیں کی موجودگی میں ایک اور محاذ کی گرمی برداشت کرنے کی دنیا متحمل نہیں ہو سکتی۔