صدف کنول، ایک پاکستانی اداکارہ اور ما ڈل، معروف اداکار بہروز سبزواری کی بہواور شہروز سبزواری کی دوسری بیوی، چاربرس پہلے ریلیز ہونے والی فلم بلو ماہی میں انہوں نے شرمین مختیار کا کردارادا کیا اور بطور ماڈل لکس سٹائل اور ہم ایوارڈ کے ساتھ متعدد ایوارڈز کے لئے نامزد ہوچکیں، زیر بحث اس وجہ سے ہیں کہ انہوں نے عیدالاضحی پر ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہہ دیا کہ شوہر کا درجہ بیوی سے بلند ہونا چاہئے اور یہ کہ وہ اپنے شوہر کے جوتوں اور جرابوں وغیرہ کا خیال رکھتی ہیں۔ اس پر ہمارے لبرلز بہت شدید غصے میں ہیں بلکہ پنجابی محاورے کے مطابق تتے توے پر ہیں۔ یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا پر ویڈیوزاور میمز بن رہی ہیں۔ صدف کنول کے آئٹم سانگز کے کلپس طنز کے ساتھ شئیر ہو رہے ہیں اور یہ شکوہ بھی ہے کہ بی بی ایک گھر توڑ کر حاجن بن رہی ہے۔
چلیں اس معاملے کے مختلف پہلووں کو ون بائے ون ڈسکس کر لیتے ہیں کہ مرد کی عورت پر ایک درجہ فضیلت کی بات آئی کہاں سے ہے تو اے پیارے پڑھنے والو، یہ بات اللہ رب العزت نے قرآن حکیم کی سورۃ النسا کی آیت چونتیس میں ارشاد فرمائی ہے اور جس کا ترجمہ ہے،’مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔۔“، بات صرف اتنی ہے کہ اگر ہم قرآن پاک کے ایک ایک حرف، زیر، زبر پر ایمان نہیں رکھتے، اسے سچ نہیں سمجھتے تو ہم مسلمان ہی نہیں ہیں مگر بہت سارے اس میں اگر مگر تلاش کرتے ہیں تو اس اگر مگر پر بھی بات کر لیتے ہیں۔ میں صدف کنول کے آئٹم سانگز اور ایک مرد کی دوسری بیوی بننے کے اعتراضات پر بعد میں بات کروں گا پہلے قرآن پاک کی اس آیت کو سمجھ لیتے ہیں کہ مردوں کی فضیلت کی دو بنیادیں کیا ہیں۔ پہلی بنیاد تو جسمانی ساخت اور ذمے داریوں کی ہے جسے ہمارے لبرلز تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر مرد، عورت سے زیادہ طاقتور اور بہتر جسم کا مالک ہے تو پھر وہ بچہ پیدا کر کے دکھائے تو یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے آپ ہاتھی سے کہیں کہ وہ درخت پر چڑھ کر دکھائے یا مچھلی کے مقابلے میں دریا میں تیر کے دکھائے مگر کیا آپ ہاتھی کو اس لئے بڑا اور طاقتور نہیں مانیں گے کہ وہ یہ دونوں کام نہیں کر سکتا، یہ قدرت نے اس کی بجائے کسی دوسرے کو ودیعت کر رکھے ہیں۔ اس وقت اولمپکس گیمز ہو رہی ہیں جن میں ہم سب پاکستانی اپنے کھلاڑیوں کے آوٹ ہونے پر کچھ زیادہ دلچسپی اور برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اولمپکس کا انعقاد کوئی مسلم ملک نہیں کرتا مگر اس کے باوجود وہاں مردوں اور عورتوں کے مقابلے الگ الگ ہوتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے کرکٹ کی الگ الگ ٹیمیں ہیں اور ڈبلیو ڈبلیو ایف میں بھی کشتیاں الگ الگ ہی ہوتی ہیں۔ مغرب والے تو عورت اور مرد کی یکسانیت اور برابری کے دعوے دار ہیں پھر وہ اس عدم مساوات اور منافقت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں، عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے سے کیوں نہیں بھڑوا دیتے کیونکہ وہ زبان سے چاہے نہ مانیں مگر عملی طور پر مانتے ہیں کہ قدرت نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور انہیں مقابلے میں نہیں لایا جا سکتا۔
میں اس آیت مبارکہ سے ایک اور بھی نتیجہ نکالتا ہوں جو مجھے بالعموم علمائے کرام کی تشریحات میں نہیں ملتا اور وہ اس آیت منطق کا وہ حصہ کہ انہوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ یہ بات اس پوری بحث میں سب سے اہم ہے اور جب ایک باپ، بھائی یا شوہر اپنے مال سے خرچ کرتا ہے تو وہ اسی طرح فضیلت پر چلا جاتا ہے جس طرح کوئی بھی مال خرچ کرنے والااور اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ جو مرد کسی عورت پر مال خرچ نہیں کرتا وہ فضیلت کا یہ درجہ کھو دیتا ہے یوں وہ تمام مرد اس فضیلت سے باہر ہو گئے جو اس پر خرچ نہیں کرتے اوروہ عورت ان کی نگہبانی میں بھی نہیں ہے۔ میں پروفیسر شبیر احمد خان صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ فضیلت کی اصل بنیاد تقوی ہے اور اگر عورت زیادہ متقی ہے تو وہ اپنے رب کے پاس زیادہ مقام اور اجر والی ہے۔ اسی بات کو اس سے بھی سمجھیں کہ جب ایک مخلوط امتحان میں ایک لڑکی فرسٹ آتی ہے تو وہ ان تمام لڑکوں پر فضیلت رکھتی ہے جو اس سے کم نمبر لیتے ہیں یعنی لڑکیاں ذہنی طور پر بھی دوسرے لڑکوں سے فضیلت رکھ سکتی ہیں اور رکھتی ہیں مگر عمومی طاقت کا معاملہ بہرحال اپنی جگہ پر موجود ہے۔ یہ پریکٹیکل اپروچ ہے کہ جو پیسے خرچ کرتا ہے وہ اہم اور فضیلت والا ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری بہت ساری خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اگر کمائیں گی تو انہیں مردوں کے مقابلے میں اہمیت ملے گی، وہ خود مختار ہوں گی، جو عملی طور پر ایک درست ہے۔
اب سوال یوں ہے کہ یہ فضیلت کیوں ضرور ی ہے تواس کا جواب ہمیں اپنے ارد گرد سے مل جاتا ہے۔ وہ تمام لبرلز بھی جو اس قرآنی حکم کی مخالفت میں جاتے ہیں اپنے ادھر ادھر دیکھیں، مغربی معاشرے میں ہی غور کریں کہ کیا انہیں وہاں کوئی کارخانہ اور کوئی ادارہ ایسا ملتا ہے جہاں سب برابر ہوں، کوئی سپروائزر اور کوئی جنرل مینیجر نہ ہو۔ ایسا کوئی کارخانہ اور کوئی ادارہ نہیں ملے گا کیونکہ اگر وہ سب کو برابر کر دیں گے تو مینجمنٹ کا سسٹم ہی تباہ ہوجائے گا، وہ ادارہ چند ہی دنوں میں ختم اور تباہ ہوجائے گاتو رب نے دنیا کا جو کارخانہ بنایا ہے اور خاندان کو جوا دارہ بنایا ہے وہ اسے مینجمنٹ کے کسی سسٹم کے بغیر چلانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔ میری دلیل ہے کہ ان کی مغرب اورمغرب نوازوں کی اسی سوچ نے خاندان کے ادارے کو تباہ کر دیا ہے، اب وہاں بعض ممالک کے پچاس فیصد سے زائدبچے اپنے باپ کا نام بھی نہیں جانتے۔
لبرلز ہمیں صدف کنول کی وہ ویڈیوز دکھا رہے ہیں جن میں وہ کم کپڑوں میں آئٹم سانگ کر رہی ہے اور وہ اس سوچ کو اس کی منافقت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں تو ہمیں صدف کنول کو سراہنا چاہئے کہ وہ شوبز میں رہتے ہوئے بھی اپنی سماجی ذمے داریوں سے آگاہ ہے، معاشرتی حقائق کا شعور رکھتی ہے، وہ جانتی ہے کہ اچھے برے کا تعلق مرد یا عورت کی جنس سے نہیں بلکہ یہ افراد کا ذاتی معاملہ ہے کہ کون اچھا ہے او رکون برا ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ اس نے شہروز سبزواری سے اس کی پہلی بیوی کی موجودگی میں شادی کی اور اس کے گھر کو توڑا تو یہ اس سوچ کا نتیجہ ہے جس میں مرد کی دوسری شادی کو ایک گناہ اور جرم بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔